عہدہ کا امیدوار نہیں ، پارٹی فیصلہ قبول کروں گا، قدوس بزنجو

  • July 30, 2018, 11:30 pm
  • National News
  • 579 Views

کوئٹہ (این این آئی)سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ نہ میں سینئر وزیر اور نہ ہی اسپیکر کا اُمیدوار ہوں۔ پارٹی جو بھی فیصلہ کرے گی میں اسے قبول کروں گا۔ میں نے تین ماہ حکومت میں رہتے ہوئے بحیثیت وزیراعلیٰ عزت سے گزارے ہیں اور میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے عزت بخشی۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ،انہوں نے کہا کہ کچھ دنوں سے بعض عناصر یہ افواہیں پھیلارہے ہیں کہ میں وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے سرگرم ہوں اور کبھی یہ خبر آجاتی ہے کہ مجھے سینئر وزیر بنایا جارہا ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اسپیکر بنایا جارہا ہے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ وزارت اعلیٰ سمیت دیگر معاملات میں پارٹی کے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے اور جو بھی فیصلہ ہوگا وہ مل بیٹھ کر ہوگا میں نہ سینئر وزیر کا اُمیدوار ہوں نہ ہی اسپیکر کا جو بھی پارٹی بیٹھ کر فیصلہ کرے گی اُسے قبول کریں گے اور ایک ایم پی اے کی حیثیت سے بھی پارٹی کے فیصلوں کے مطابق چلوں گا اور عوام کی خدمت کروں گا اگر پارٹی نے کوئی ذمہ داری سونپی اور مجھے موقع دیا تواُسے نبھانے کی پوری کوشش کروں گا لیکن یہ بات میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پارٹی کے اندر اس حوالے سے نہ کوئی گروپنگ ہے نہ اختلاف جو لوگ پارٹی کے اندر ایسی افواہیں پھیلا کربدگمانیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ کسی طرح بھی پارٹی کے ساتھ مخلص نہیں۔دریں اثناء سابق وزیراعلیٰ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور نو منتخب رکن اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے سوموار کے روز سابق وزیراعلیٰ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل سے انکی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور اُنہیں اور اُن کی جماعت کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی اس موقع پر بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اور ان کی جماعت کے ساتھ ان انتخابات میں ناجائز ہوا ہے اور بعض حلقوں میں دھاندلی کے ذریعے اُن کے اُمیدواروں کو ہرایا گیا ہے تاہم اس کے باوجود اُنہوں نے کڑوا گھونٹ پیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بعض عناصر ہماری جماعت بلوچستان عوامی پارٹی پر الزام عائد کررہے تھے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بعض قوتوں کی آشیر باد حاصل ہے لیکن جو نتائج سامنے آئے ہیں اُن میں ہم بعض ایسے حلقوں سے جہاں ہمارے اُمیدوار انتہائی مضبوط تھے اور جب سے جمہوری پراسیس چل رہا ہے وہ نشستوں پر کامیاب ہو کر آتے رہے لیکن اس مرتبہ وہ بھی ہار گئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عوام کا فیصلہ تھا جسے ہم قبول کرتے ہیں اور اس الیکشن کو ہم فیئر سمجھتے ہیں ہم جمہوری انداز میں الیکشن لڑ کر آئے اور ہماری جماعت کو عوام نے جو مینڈیٹ دیا وہ ہم نے قبول کیا اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہمیں نہ کسی قوت کی آشیر باد حاصل تھی نہ سپورٹ اگر ہمیں ان قوتوں کی آشیر باد اور سپورٹ حاصل ہوتی تو پھر آج بلوچستان میں انتخابی نتائج بھی مختلف ہوتے۔ لہٰذا ہمیں ملکر بلوچستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔