سینٹ اراکین پر مشتمل کمیٹی جسٹس صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کرے،مرتضیٰ ایڈووکیٹ

  • July 23, 2018, 10:55 pm
  • National News
  • 56 Views

کوئٹہ(آئی این پی)پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین شبیراحمد شر نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ وطن عزیز دستور کے مطابق انتقال اقتدار کے ایک مرحلے یعنی الیکشن کے دور سے گزررہاہے جس کا منطقی نتیجہ عوام کی رائے کے مطابق آئندہ پانچ سال کیلئے حکومت کرنے کااختیار منتقل کرناہے گو کہ پاکستان کے تقریباََ ہر الیکشن کے حوالے سے تنازعات موجود ہیں مگر موجودہ الیکشن میں یہ تنازعہ الیکشن سے پہلے ہی شدت اختیار کرچکاہے اور قبل از انتخاب دھاندلی کا شور وغوغا ہے اس ماحول میں ان تنازعات کو مزید ہاو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج کی ایک تقریر سے ملی جو انہوں نے پنڈی بار میں کی جس کے مطابق آنے والے الیکشن کو عدالتوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے مرضی کے بینچز بنوائے جاتے ہیں یعنی مرضی کے فیصلے بھی لئے جاتے ہیں اور اس الزام کوپورے ملک میں بالعموم اور بار میں بالخصوص انتہائی سنجیدگی اور تکلیف کا عالم میں لیاگیا کیونکہ بحر صورت اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی بحث سرحدوں سے باہر بھی گئی اور یقیناًمزید جائے گی بھی جس سے آئندہ آنے والی حکومت کے حق حکومت کے تعلق سے بھی سوالات جنم لیں گے ،سینئر جج کے بیان آنے کے بعد وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کی رائے تھی کہ اس معاملے کو تیسرے فریق کے ذریعے انکوائری کیاجائے یعنی سینٹ کے ممبران پرمشتمل کمیٹی اس معاملے کو دیکھے مگر اس دوران سپریم کورٹ نے اس بیان کا سوموٹو نوٹس لیا آئی ایس پی آر کی طرف سے اور جسٹس صدیقی کی طرف سے بھی تحقیق کا مطالبہ سامنے آیا اور بار کونسل کے ایک معزز رکن راحیل کا مران شیخ کا خط بھی موصول ہوا جنہوں نے اس معاملے کو فل کورٹ میں رکھنے کامطالبہ کیا۔اس انتہائی حساس معاملے میں جس کے ساتھ عدلیہ کی آزادی ،خودمختاری ،ملکی بقاء جڑی ہوئی ہے پر دستیاب ساتھیوں سے مشورہ کیا گیا جن کی متفقہ رائے میں اس قذیہ کو فل کورٹ میں سماعت کرنے ،پاکستان کی تمام Major Bars کی موجودگی یقینی بنانے اور میڈیا کی موجودگی کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی حاضری کو بھی یقینی بنانا ضروری ہوگا، پاکستان بار کونسل یہ سمجھتی ہے کہ اس الزام کو قالین کے نیچے دبانے سے مسائل میں اضافہ ہوگا اداروں کی ساکھ خراب ہوگی ملکی وقار تباہ وبرباد ہوکر رہ جائے گا،لہٰذاء اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیاکہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے تمام ججز اس معاملے کی سماعت کھلی عدالت میں کریں اور جسٹس صدیقی کو الزامات ثابت کرنے کا موقع دیں بصورت اثبات الزامات مداخلت کے مرتکب افراد کے خلاف اقدامات کویقینی بنائیں ۔