محکوم ومظلوم اقوام کی آئندہ نسلوں کی بقاء یکجہتی میں ہے ،لشکری خان رئیسانی

  • July 19, 2018, 11:20 pm
  • National News
  • 45 Views

کوئٹہ(این این آئی)بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء نوابزادہ لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ محکوم ومظلوم اقوام کی آئندہ نسلوں کی بقاء یکجہتی میں ہے ۔ پارلیمنٹ کے ذریعے ملک کی غلط پالیسیوں کو درست کرنا ہوگا۔ اندرونی سیکورٹی اس وقت بہتر ہوگی جب معاشی اور انتظامی پالیسی کو شفاف بنائیں گے۔ گزشتہ روز ساراوان ہاؤس میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو اورنجی ٹی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری پگڑیاں اچھال کر ہمارے کردار کو متازعہ بنانے کی کوششیں کرنے والے شاید ہماری تاریخ سے نابلد ہیں اپنی دستار اور وقار کی حفاظت کیلئے ہم نے اپنی تین نسلیں قربان کی ہیں ۔ نوابزادہ میر سراج خان رئیسانی سمیت دیگر شہداء ہمارے پہلے اور آخری شہداء نہیں جب تک سانس میں سانس ہے اکابرین کے متحرک کردہ اصولوں پر میرا خاندا ن اور قبیلہ سمجھوتہ نہیں کریگا۔ بلوچستان میں جرائم پیشہ عناصر دندناتے پھررہے ہیں اور سیاسی کارکنوں کو گھروں سے نہ نکلنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ سانحہ مستونگ میں میرے ایک بھائی سمیت کئی سو ہمارے بھائی شہید ہوئے ہیں۔اور یہ تمام شہداء ہمارے وجود کا حصہ تھے۔ میڈیا ہو یا کوئی بڑا شخص ان کے پاس صرف چند گھسے پٹے جملے ہیں یعنی اللہ خیر کرے گا۔ اللہ توخیر کا راستہ دکھاتا ہے خیر خود ہم نے اپنے لئے پیدا کرنی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہم آج اس نہج تک پہنچے ہیں ہمیں غلط پالیسیوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے ٹھیک کرنا ہوگا۔اندرونی سیکورٹی اس وقت بہتر ہوگی کہ جب معاشی اور انتظامی پالیسی کو شفاف بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اسمگلر اور جرائم پیشہ عناصردندناتے پھرتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ گھر سے نہ نکلیں۔ انہوں نے گلہ کیا کہ میڈیا کا بیشتر حصہ مالی مفادات کی خاطر بلوچستان سے زیادہ منر ل واٹر کو ترجیح دیتا ہے۔ ترقی میں رکاوٹ نواب اور سردار ہیں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم اپنے لوگوں کی ترقی ،خوشحالی اور وسائل پر اختیار چاہتے ہیں۔ اس سوال پر ایک کھلے فورم پر بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ چیف آف ساراوان نواب اسلم رئیسانی نے ریکوڈک کا اختیار بلوچستان حکومت اور گوادر کو صوبائی دارالحکومت قرار دیکر سائل وساحل کا تحفظ عملی طور پر کردکھایا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی تھریٹ یہاں کس کو نہیں فرقہ واریت کے نام پرلوگوں کو قتل کیا جارہاہے ۔ سیٹلرز کے نام پر خون بہایا گیا ہے ۔ دہشگردی کے واقعات میں لوگ لقمہ اجل بنے ہیں ان واقعات کا تدارک کرنا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ اگر کسی محلہ میں ایک سے زائدہے مرتبہ ڈکیتی کی واردات ہوتی ہے تو لوگ ہمسایہ پر شک کرنے کی بجائے چوکیدار کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ اپنی انتخابی مہم دوبارہ شروع کرنے سے متعلق سوال کے جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں پارٹی کے فیصلہ کا پابند ہوں پارٹی نے مجھے صوبائی اور قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے نامزد کیا ہے ۔ انتخا بی مہم کے دوران کوئٹہ شہر میں آباد بردار اقوام سمیت تمام مذاہب اور فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے جس طرح مجھے عز ت بخشی میرے پاس انکا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں ۔ میری انتخابی مہم کے دوران بچے ننگے پاؤں میرا استقبال کرنے گھنٹوں انتظار کیا کرتے تھے ۔ میں جہاں اپنے پارٹی کا منشور پیش کرنے جاتا اجتماع میں شریک لوگوں کے علاوہ گھروں میں بیٹھی خواتین اور بچے بھی مجھے اپنی حمایت کا پیغام بھیجا کرتیں ۔ان کا کہنا تھاکہ ابھی تک ہمارے پیارے ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں شہداء کی قبروں کی مٹی خشک نہیں ہوئی، ایسے گھرانے ہیں جہاں کوئی فاتحہ لینے کیلئے نہیں بچالوگ حالت سوگ میں ہیں ایسے میں میرا ضمیر مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اپنے پیاروں کو دفنانے کے بعد بھی میں انتخابی مہم چلاؤں۔ اس وقت میری ضرورت ان لواحقین کو ہے جن کا غم شاید مجھ سے کہیں گناہ زیادہ ہوگا ۔