لوچستان کے مسئلہ کا حل کسی ’’باپ‘‘ کے بس کی بات نہیں،’’بابے رحمت ‘‘شیخ رشید کے لیے بھی ’’باعث رحمت‘‘ بنے ، حافظ حسین احمد

  • July 3, 2018, 10:48 pm
  • National News
  • 72 Views

کوئٹہ(سٹاف رپورٹر)متحدہ مجلس عمل کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ اورجمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 266کے امیدوار حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ نگران حکومتیں گورنر ہاؤسز کی نگرانی کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں اورگورنر ہاؤسز سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں تبدیل اور گورنرز انتخابی دنگل میں اترے ہوئے ہیں، صوبہ بلوچستان کے مسئلہ کا حل کسی ’’باپ‘‘ کے بس کی بات نہیں،’’بابے رحمت ‘‘شیخ رشید کے لیے بھی ’’باعث رحمت‘‘ بنے ، نااہل قرار دئیے جانے والے سیاستدان پیدائشی نااہل تھے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پریس کلب کوئٹہ میں پریس کانفرنس اور فیض آباد میں حلقہ این اے 266، پی بی 32,31,30کے ’’انتخابی سیل ‘‘دفتر کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا، حافظ حسین احمد نے مزید کہا کہ صوبے بلوچستان کے مسئلہ کا حل کسی ’’باپ‘‘ کے بس کی بات نہیں بلکہ صوبے کے سائل اور وسائل پر آئینی اختیار سے معاملے کو سنبھالا جاسکتا ہے، ’’بابے رحمت‘‘ شیخ رشید کے لیے بھی ’’باعث رحمت‘‘ بنے اور ان کے حلقہ میں قدم رنجہ فرمایا جبکہ شیخ رشید کی اسی وقت موجودگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ نااہل قراردئیے جانے والے سیاستدان شروع سے ہی پیدائشی نااہل تھے مگر ماضی میں ان کو آگے لایا گیا اور ان کو استعمال کیا گیا اب اگر وہ مزید استعمال ہونے سے انکار کرچکے تو پھر ان کی اصلیت کو برقرار رکھا گیا، حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ نگران حکومتیں اگر گورنر ہاؤسز کی نگرانی نہیں کرسکتی تو پھر وہ پورے صوبے کی نگرانی کیسے کرسکتی ہیں، آئین پاکستان میں نگران سیٹ اپ کو اس لیے جگہ دی گئی کہ ماضی میں انتخابات کے بعد اکثر جماعتیں ان انتخابات کو غیر جانبدارانہ اور شفاف منانے سے انکاری رہی جس طرح 2013کے الیکشن کے بعد دھرنا کلچر سامنے آیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین پاکستان میں پارلیمنٹ نے ایک ترمیم کی کہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات کے وقت کچھ عرصے کے لیے ایسی حکومت قائم کی جائے گی جو نگرانی کرے اور اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں وفاق اور چاروں صوبوں میں نگران حکومتیں قائم کی گئیں لیکن لگتا ہے کہ بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں جو نگران حکومتیں ہیں اس کی نگرانی بڑی کمزور ہے اور نگران حکومت کی نگرانی کرنے والے بھی اس کو خاطر میں نہیں لاتے ،بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں اس وقت جو گورنرز موجود ہیں انہوں نے گورنر ہاؤسز کو متعلقہ پارٹیوں کے الیکشن سیل میں تبدیل کردیا ہے ،بلوچستان کے گورنر ہاؤس میں موجود گورنر محمود خان اچکزئی کے بھائی ہیں اور محمود خان اچکزئی خود الیکشن میں حصہ لئے ہوئے ہیں اس لیے شفاف انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شہبات پیدا ہورہے ہیں،انہوں نے کہا کہ اگر شفاف انتخابات کے انعقاد کی بات کی جاتی ہے تو پھر چاروں صوبوں کے گورنرز کو ہٹایا جائے تاکہ انتخابات کے حوالے سے جو شکوک و شبہات ہیں وہ ختم ہوسکیں ، انہوں نے کہا کہ سریاب ،پشین اور خضدار سمیت دیگر علاقوں میں جو سابقہ حکومتوں کے وقت کے ٹرانسفارمرز جو انہوں اپنے گھروں میں رکھے ہوئے تھے اور سلائی مشینوں سمیت دیگر سرکاری وسائل کو اب تقسیم کیا جارہا ہے جو کہ انتخابات سے پہلے دھاندلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔