امریکہ سمجھتا ہے کہ عالم اسلام اسکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایاجارہاہے ،مولانا محمد خان شیرانی

  • June 29, 2018, 10:34 pm
  • National News
  • 91 Views

کوئٹہ (سٹاف رپورٹر )جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما و اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ اس دورمیں جنگ عالم اسلام کے فائدے میں نہیں بلکہ اسکا فائدہ چند عالمی قوتوں کو پہنچ رہا ہے امریکہ سمجھتا ہے کہ عالم اسلام اسکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایاجارہاہے جمعیت علماء اسلام بلوچستان کی جانب سے عام انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں صوبائی عہدیدارہی بہتر طور پر بتاسکتے ہیں ۔یہ بات انہوں نے جمعہ کو کوئٹہ پریس کلب کے پروگرام آگاہی میں بات چیت کرتے ہوئے کہی اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما و سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ بھی موجود تھے پروگرام کے آغاز پر کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن نے مولانا محمد خان شیرانی کو کوئٹہ پریس کلب آمد اور پروگرام آگاہی میں شرکت پر خوش آمدید کہا۔مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ 15ویں صدی کے بعد جب مغرب میں ایجادات کا آغاز اور سیاست شروع ہوئی تو مغرب پر یہ بات آشکار ہوئی کہ انہیں پوری دنیا پرحکمرانی کرنی چاہئے 20ویں صدی کے آغاز پرمغرب میں بالادستی کیلئے پہلی جنگ عظیم ہوئی جس کے اختتام پر لیگ آف نیشنز کاقیام عمل میں لایا گیا اس دوران یہ طے پایا کہ کوئی مغربی ملک کسی دوسرے مغربی ملک پر حکمرانی کیلئے براہ راست کوششیں نہیں کریگا مگراس کیلئے دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہوئے آزاد سیاسی حکومتوں کا نعرہ دیا گیااور یہ کہاگیا کہ عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا مگر صرف چند سال بعد دوسری جنگ عظیم برپاہوئی جس کے اختتام پر دنیاکی پانچ عالمی طاقتوں کا اجلاس امریکہ میں ہوا جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر پرکام کیا گیااوریواین او کا قیام عمل میں لاتے ہوئے لیگ آف نیشنز کا خاتمہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں جنرل کونسل میں دنیا کے تمام ممالک کی اگرچہ نمائندگی ہے مگراصل طاقت سیکورٹی کونسل کے پانچ ممالک کے پاس ہے جو اپنے مفادات کیلئے کسی بھی بات کو ویٹو کرسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 1948ء میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے حقوق انسانی کا منشور منظور ہوا اور اگلے سال سوویت یونین کے مقابلے کیلئے امریکہ کی سربراہی میں نیٹو کا قیام عمل میں لایا گیاجو 1989ء میں سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء تک برقراررہا ۔انہوں نے کہا کہ روس کے انخلاء اور افغانستان میں جنگ بندی کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ نہ صرف وہاں بلکہ دنیا میں امن قائم ہوگا مگراس موقع پر مغربی عالمی قوتوں کے درمیان اس بات پراتفاق ہوا کہ اب عالمی جنگ ہوئی تو وہ عالم اسلام کے خلاف ہوگی تاہم اسکا نام جنگ سے تبدیل کرکے دہشت گردی اورانتہاء پسندی کا نام دیکر شروع کی گئی مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کرنے کیلئے دعیش اورالقائدہ کے نام استعمال ہوئے انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں دو طرح کی ریاستیں ہوتی ہیں ایک ویلفیئر اسٹیٹ اوردوسری سیکورٹی اسٹیٹ ہوتی ہے دنیاکے چند ایک ممالک ویلفیئر اسٹیٹ ہیں ویلفیئر اسٹیٹ کا مقصد عوام کی ترقی اورخوشحالی ،کرپشن اورجرائم کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس سیکورٹی اسٹیٹس میں جرائم اور کرپشن کی سرپرستی ہوتی ہے اوربدقسمتی سے زیادہ ترمسلمان ممالک سمیت دیگر ممالک میں یہی نظام ہے ۔مولانا شیرانی نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماراملک بھی اب تک ویلفیئر اسٹیٹ نہ بن سکا1989ء میں سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء بعد ہماری سیاست بھی تبدیل ہوگئی سیاسی جماعتیں کرپشن کا شکارہوئیں مفادات کی سیاست کو فروغ ملاجسکے بعد آج ہمارے ملک میں سیاست کا آغاز منافقت اوراختتام تجارت پرہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمدکیلئے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا گیا جسے آئین میں گنجائش نہ ہونے کے باعث ترمیم کرکے اختیارات دیئے گئے ۔ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا رابطہ پارلیمنٹ سے ہوتا ہے اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام سفارشات تیار کرنا اور قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے اکثر لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ جب اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل نہیں ہوتا تو اسکا کیا فائدہ بات اتنی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل تو اپنا کام کرکے پارلیمنٹ کو سفارشات بھیج دیتی ہے اگر پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرتی تو یہ اس سے پوچھا جائے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جمعیت علما ء اسلام بلوچستان کی جانب سے عام انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں انہیں علم نہیں کیونکہ وہ اس وقت جمعیت کے کسی ادارے میں نہیں ہیں اسکے بارے میں صوبائی قیادت بہتر بتاسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری سیاست کا رخ دلیل اور نظریات کی بجائے مفادات کی طرف موڑدیاگیا ہے افغان جنگ کے آغاز میں افغان عوام نے ایک ایسے دشمن کا مقابلہ کیا تھا جو انکے گھرمیں گھس آیاتھاالبتہ 1989ء میں سوویت یونین کی انخلاء کے بعد جب مجاہدین نے امریکی غلامی سے انکار کیا تو امریکہ نے ایک اورجنگ چھیڑ کر مجاہدین کو بدنام کیااورپھرایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ 2001ء میں افغانستان میں نیٹو کی مداخلت کیلئے دروازے کھول دیئے گئے امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا کا موجودہ نقشہ تبدیل ہو اور وہ ایک نئے نقشے کے تحت اپنے مفادات چاہتا ہے افغان جنگ کے بعد سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھاکہ اب انکا واضح دشمن اسلام ہے سعودی عرب کے بارے میں ایک منصوبہ ہے جس کے تحت عالمی قوتیں خانہ کعبہ کانظم ایک کونسل کو دیکر سعودی ریاست کو محدود کرنا چاہتی ہیں امریکہ سمجھتا ہے کہ عالم اسلام اس کیلئے سب سے بڑامسئلہ ہے جس سے وہ نجات ضروری سمجھتا ہے ۔