کالاباغ نہیں ڈیمز کی بات ہے، چار بھائی متفق نہیں، متبادل حل نکالیں، قوم اختیار دے تو کردار ادا کرسکتے ہیں،چیف جسٹس، کراچی میں اشتہاری دیواریں گرانے کا حکم

  • June 10, 2018, 4:39 pm
  • Breaking News
  • 134 Views

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضح کیا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے کالاباغ ڈیم پر عدالت کوئی بحث نہیں کریگی، تاہم سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کریگی، صورتحال سے پتہ چلتاہےکہ پوری قوم بداعتمادی کو بھگت رہی ہے، وعدہ کرتا ہوں ایسا کوئی حکم نہیں دینگے جس سے کوئی فریق متاثر ہواور نہ ہی خود نمائی کرنےوالوں کو فریق بننے کی اجازت دینگے،سپریم کورٹ وفاق کی علامت ہے ہم یہاں جوڑنے کےلیے بیٹھے ہیں توڑنے کےلیے نہیں لیکن جہاں تنازع ہو اور چار بھائی متفق نہیں تو متبادل حل بھی نکالنا ہوگا، قوم اختیار دے تو کردار ادا کرسکتے ہیں، چاہتے ہیں پانی بحران پر قابو پایا جائے، عدالت عظمیٰ نے سابق چیئرمین واپڈا کو پانی کی قلت سے متعلق عدالت کی باضابطہ معاونت کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے وی آئی پیز سے اضافی سیکورٹی اور لگژری گاڑیاں واپس لینے سے متعلق کیس میں

ریمارکس دیئے سندھ میں چار ہزار بندوں کو سیکورٹی دی ہوئی ہے؟ آئی جی صاحب خدا کا خوف کریں، کسی ایسے بندے کو سیکورٹی نہ دیں جسے قانون اجازت نہیں دیتا۔ پی آئی اے سمیت دیگر ایئر لائنز کے پائلٹس اور عملے کی ڈگریوں سے متعلق کیس میں عدالت نے پائلٹس کی ڈگریاں 6؍ ہفتوں میں تصدیق کرانے کی ہدایت کی ہے۔ جبکہ کنٹونمنٹ بورڈز کی حددومیں شاہراہ فیصل سمیت کراچی کی تمام شاہراہوں سے اشتہاری دیواروں کو مسمار کرنے کا حکم دے دیاہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے یہ ریمارکس اور ہدایت سپریم کورٹ کراچی رجسٹسری میں مختلف مقدمات کی سماعت کے موقع پر دی۔ تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ نے پانی کی قلت اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق بیرسٹر ظفر اللہ خان کی دائر درخواست کی سماعت کی۔ بنچ کے دیگر اراکین میں جسٹس فیصل عرب اورجسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے،سماعت کے موقع پر چیف سیکرٹری سندھ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، مجیب پیرزادہ ایڈووکیٹ ،پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر، مولا بخش چانڈیوسمیت دیگر افراد بھی موجود تھے،سماعت کا آغا ز ہوا تو چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے ملک میں ڈیمز کس طرح بنائے جائیں، قانون بنانے کی صلاحیت تو ملک میں ختم ہو چکی ہے، لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے قانون بنا کر پارلیمنٹ کو سفارش کی جاسکتی ہے، قوم اختیار دے تو سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خود نمائی کرنے والے لوگ نہیں چاہئیں، سیمینار کے ذریعے پہلا قدم اٹھائینگے جسکا آغاز کراچی اور سندھ سے کرینگے۔ چیف جسٹس کے استفسارپر سابق چیئرمین ظفر محمودنےپانی کی قلت اور ڈیمز کی تعمیرات سے متعلق بریفنگ دیتےہوئے کہاہے کالا باغ ڈیم بنانے پر لوگوں کو مکمل آگاہی نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں پانی کی قلت کیسے پوری کریں جس پر انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم تنازع کے بعد واپڈا کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیا تھا،سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے کمرہ عدالت میں پروجیکٹر کے ذریعے کالا باغ ڈیم پر بریفنگ دی اور بتایا کہ ہم نے ڈیمز بنانے سے متعلق ہم نے کوتاہی کی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حکومتوں کو ان کا ادراک نہیں رہا جس پر ظفر محمود کا کہنا تھا کہ تمام حکومتیں ہی اس مجرمانہ غفلت کی ذمے دار ہیں، بھارت تسلسل کے ساتھ پانی بند کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ اس حوالے سے ہمیں مزید تنگ کرے گا،بھارت منصوبے بناکر عملدرآمد کرتارہاجبکہ ہمارے منصوبوں پر حکومتوں نے فنڈنگ ہی نہیں کی اور اب انہی منصوبوں کی لاگت دوگنی ہوگئی ہے۔سابق چیئرمین واپڈا نے کہا کہ لوگوں میں پانی کے استعمال اور بچت پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے، صنعتی ماحول سے زیر زمین پانی بھی خراب ہو رہا ہے، صنعتوں سے متعلق کوئی مربوط پالیسی نہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ معلوم ہے صنعتیں فضلہ صاف کرنے کے بجائے نالوں میں پھینک رہی ہیں، لاکھوں گیلن گندا پانی سمندر میں جا رہا ہے جس پر ظفر محمود نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ صنعتی فضلے کیلئے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جائیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ پانی کی قلت سے متعلق میں عدالت کی باضابطہ معاونت کرسکتے ہیں ؟جس پر انہوں نے کہا کہ میں ملک و قوم کیلئے میری خدمات درکارہیں تو اس عمل کو اپنے لئے عزاز سمجھوں گا۔اس موقع پر سینئر وکیل مجیب پیرزادہ ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور چیف جسٹس کا بتایاکہ چاروں صوبوں کے عوام نے کالا باغ ڈیم کو خطرہ قرار دیا، کالا باغ ڈیم کا معاملہ متنازع ہو چکا ہے،جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ سب خطرہ محسوس نہ کریں، ہم کالا باغ ڈیم پر بات نہیں کر رہے،ہم نے کالا باغ ڈیم کو اس بحث سے بالکل علیحدہ کرلیاہےکیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ پانی کے مسائل پر بات ہو اور پانی بحران پر قابو پایا جاسکے۔ چاروں بھائیوں سے ایک جیسا سلوک کریں گے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہاکہ پوری قوم بداعتمادی کو بھگت رہی ہے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میںکہا وعدہ کرتا ہوں ایسا کوئی حکم نہیں دینگے جس سے کوئی فریق متاثر ہو،سپریم کورٹ وفاق کی علامت ہے ہم یہاں جوڑنے کیلئے بیٹھے ہیں توڑنے کیلئے نہیں لیکن جہاں تنازع ہو اور 4 بھائی متفق نہیں تو متبادل حل بھی نکالنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آنے والی نسل کو اچھا مستقبل دیکر جائینگے جس پر ایڈووکیٹ مجیب پیرزادہ نے کہا کہ پوری قوم آپکے ساتھ ہے اچھے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے کہا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے کئی حل موجود ہیں اور کئی منصوبے ہیں جس میں سمندر کا پانی میٹھا بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہےجس پر چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کی حکومت تو سندھ میں 10 سال سے ہے مجھے ایک ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آیا، یہ منصوبے تو کاغذ پر تھے ہم نے نوٹس لیا تو کام شروع ہوا،پانی ری سائیکل کرنے کی زمین پر ہاؤسنگ اسکیم بنادی گئی ،آپ باقی باتیں چھوڑیں یہ بتائیں عدلت کی کیا معاونت کرسکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس میںکہاکہ میں 24 گھنٹے کام کرنے کو تیارہوں اور جب تک ریٹائرڈ نہیں ہوجاتا پانی سے متعلق کمیٹی کی نگرانی بھی خود کروں گالیکن خود نمائی کیلئے کسی کو فریق بننے کی اجازت نہیں دوں گا۔ درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ نے عدالت سے استدعا کی کہ کالا باغ ڈیم بنانے کیلئے ریفرنڈم کرایا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنڈم عدالت نہیں وفاقی حکومت کراسکتی ہے۔