قرآن پاک کا سبق یاد نہ ہونے پر بچوں پر بدترین تشدد
- January 30, 2021, 11:15 am
- National News
- 182 Views
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ہے کہ استاد نے اپنے شاگردوں پر بہیمانہ تشدد کیا ہے مگر جب بھی ایسی کوئی ویڈیو سامنے آتی ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ کیا اس طرح بدترین تشدد کرنے سے بچوں کو سبق یاد ہو جائے گا یا پھر ان میں خوف پیدا ہو گااوریہ خوف ان کے اندر اتنا سما جائے گا کہ بچپن گزرنے کے بعد لڑکپن کی سرحد پار کرنے اور جوانی کی دہلیز میں قدم رکھنے پر بھی ان کے ذہن سے کبھی خوف ختم نہیں ہو پائے گااور یہی بچے جب بڑے ہو جاتے تو بچپن میں اپنے ساتھ ہونے والی مارپیٹ اور دیگر مظالم کا بدلہ چکانے کی خاطر دوسرے بچوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ کہانی یوں ہی چلتی رہتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک نوجوان قاری صاحب چھوٹے بچوں سے قرآن پاک کا سبق سن رہے ہیں۔
Yeh jo maar raha hai, khud bhi isi tarha pita ho ga buchpan mein. Violence breeds violence. Can someone identify him? After 12 years of struggle @ZindagiTrust pushed governments to change the law so these people can be punished but still struggling to change the mindset . pic.twitter.com/zMu3XAMQAH
— Shehzad Roy (@ShehzadRoy) January 29, 2021
تین بچے جو ان کے سامنے بیٹھے ہیں انہیں سبق اچھی طرح یاد نہیں لہٰذا قاری صاحب کا غصہ آسمان کا چھوتااور وہ ان پانچ سے سات سال کے بچوں پر تھپڑوں کی ایسی بارش کرتے ہیں کہ ویڈیو دیکھ کر قاری صاحب پر بھی ایسے ہی تھپڑوں کی بوچھاڑ کرنے کو دل کرتا ہے۔
معصوم بچوں کے گالوں کو تاک تاک کر تھپڑ برسانااور وہاں سے مار کھانے کے خوف سے بھاگ جانے والے بچے کو واپس لا کر تھپڑوں سے نوازنا کس قدر خوفناک ہے۔شہزاد رائے نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے کیپشن لکھا کہ شاید بچپن میں اس قاری صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا ہو جس کا بدلہ لینے کا موقعہ اسے آج ہاتھ میں آیا،لہٰذا ایسے تشدد کو روکنے کے لیے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔
بات تو ان کی درست ہے کہ ایک کے ساتھ بچپن میں ظلم ہو گا تو وہ جب طاقتور ہو گا تو اس ظلم کا بدلہ چکائے گا۔تاہم ہم سب کو اجتماعی اور انفرادی سطح پر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں،ماتحت کام کرنے والوں اور ان سب کوگوں کے ساتھ کیسا رویہ اپنا رہے ہیں جو کہ ہم سے نیچے ہیں یا پھر ہماری زیرنگرانی ہیں۔ہمیں پورے معاشرے کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔