کورونا لاک ڈاﺅن:منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ

  • June 20, 2020, 1:30 pm
  • COVID-19
  • 77 Views

کورونا لاک ڈاﺅن ہماری ذہنی صحت پر بری طرح اثر انداز ہورہا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل عرصے تک قائم رہیں گے‘ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بیشتر مریض الیکٹرونک میڈیا ‘اخبارات‘ سوشل میڈیا پر مصدقہ اور غیر مصدقہ خبروں کی بہتات سے پریشان نظر آتے ہیں جن میں ایسی ویڈیوز ہوتی جن میں لاشیں ، یا دفنانے کے مناظر ہوتے ہیں اور یا مریضوں کی حالت دکھائی جاتی ہے جس سے لوگوں میں خوف بڑھ جاتا ہے.
یہی وجہ ہے لوگ ٹیسٹ کروانے پر بھی تیار نہیں ہوتے دنیا میں خوف کو وباءسے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور کئی معاملات میں حکومتوں اور عالمی اداروں کی جانب سے ایسی مشکوک سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں جن سے سازشی تھوریزپر لوگوں کا یقین پختہ ہوا اور ایسے لوگوں کی تعداد بڑھی جو وائرس کے وجود پر سرے یقین نہیں رکھتے. پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں کو کورونا ہسپتالوں میں تبدیل کرنے سے مختلف امراض میں مبتلا لوگوں کو طبی امداد نہیں مل رہی ‘اسی طرح ہسپتالوں کے مریضوں بیرونی شعبہ جات (او پی ڈی)بند کرنے سے شہری بروقت علاج میسر نہ آنے سے معمولی انفیکشن سے شدید نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر مررہے ہیں مگر حکومت ہسپتالوں کو نارمل حالت پر لاکر ان میں کورونا کے مخصوص شعبے قائم کرنے کی بجائے بضد ہے کہ ہر آنے والے مریض کا پہلے کورونا ٹیسٹ کیا جائے چاہے وہ روڈ ایکسیڈینٹ کا کوئی کیس ہو یا ہارٹ اٹیک کا ‘بعض حلقوں کا یہ الزام بھی ہے کہ صوبوں کی صحت سے متعلق وزارتیں نجی شعبہ میں قائم ہسپتالوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسی پالیسیاں اپنا رہی ہیں .
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ڈیڑھ کروڑ کے قریب آبادی کے شہر کے لیے‘شہر کی آبادی کے علاوہ صوبہ بھر سے لوگ لاہور علاج معالجے کی غرض سے آتے ہیں صرف میو‘گنگا رام‘سروسز‘جناح‘جنرل اورشیخ زید 6 بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جبکہ درجن بھر کے قریب چھوٹے ہسپتال ہیں جن میں بیڈزکی مجموعی تعداد300سے بھی کم ہے جبکہ لاہور میں سینکڑوں نجی ہسپتال واقع ہیں جوکہ بااثر لوگوں کی ملکیت ہیں .
کورونا کی بے ہنگم اور خوفزدہ کردینے والی میڈیا مہم کے نفسیاتی مسائل پر بات کرتے ہوئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے سابق سربراہ پروفیسر ریاض شیخ نے”اردوپوائنٹ“سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایسے حالات میں شہریوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ میڈیا سے زیادہ سے زیادہ دور رہیں اور سوشل میڈیا سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلیں جبکہ معلومات حصول کے لیے ایسے ذرائع معلومات کا انتخاب کریں جو ان کے نزدیک مصدقہ خبریں دے رہے ہوں‘انہوں نے کہا کہ منفی خبروں کے پھیلنے سے مایوسی بڑھ جاتی ہے جس سے ذہنی دباﺅ پیدا ہوتا ہے اور ایسے میں خوف بڑھ جاتا ہے اور مریض کو مختلف مسائل پیش آتے ہیں.
ان کا کہنا ہے کہ وائرس کے متعلق حکومت نے جو معلومات فراہم کرنا تھیں کر دی ہیں اور اس میں لوگوں کو محتاط رہنے کی تلقین کی گئی ہے اس لیے ان مشوروں پر عمل کریں اور اپنے ذہن کو پر سکون رکھیں‘ڈاکٹرریاض شیخ نے کہا کہ عام حالات میں لوگ کا ٹائم ٹیبل طے ہوتا ہے جیسے صبح بیدار ہونے کے بعد ورزش ہے دفتر جانا ہے لوگوں سے ملنا ہے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں لوگ باہر نہیں جا سکتے دفتر نہیں رہے اور لوگوں سے ملنا نہیں ہے تو لوگوں کو کیا کرنا چاہیے‘ان حالات میں گھر افراد کے ساتھ بات چیت کریں‘کتابوں کا مطالعہ اور ورزش کریں اور اپنے آپ کو مطمئن اور پرسکون رکھنے کے لیے سانس کے ذریعے اپنے آپ کو پرسکون رکھنا ضروری ہے اس کے لیے انہوں نے کہا کہ لمبی سانس لیں اور پھر دس سے پندرہ سیکنڈ تک سانس کو روکے رکھیں اور کے بعد سانس چھوڑدیں اور یہ عمل دن میں تین مرتبہ ضرور کریں‘انہوں نے کہا کہ یہ عمل کرتے وقت اپنے تخیل میں بہتر نظارہ رکھیں جیسے سمند کا کنارہ یا کسی ہل سٹیشن کا نظارہ تاکہ آپ سکون محسوس کریں.
یونیورسٹی اور ہیلتھ سائنسز اورشیخ زید ہسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شکور نے کہا کہ ہلکی پھلکی ورزش کریں اور مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ پر امید رہیں انہوں نے کہا کہ جو اللہ تکلیف دیتا ہے تو وہی اسے دور بھی کرتا ہے‘ سائیکاٹری صرف ایک بیماری نہیں ہے بلکہ سوشل رویے اور لوگوں سے ملنے کے متعلق ہے اور علاقے کی روایات ہیں جن کو بدلنا ہے اور اس کے لیے لوگوں کا ہر چیز سے آگاہ ہونا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے بارے میں مصدقہ اور غیر مصدقہ معلومات کی بہتات سے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں .
ادھر ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے خوف سے دنیا میں صحت کی خواہش کی بجائے ضرورت کے مطابق منشیات کے ذریعے ”اپنی مدد آپ“ کا طریقہ اختیار کیا جارہاہے‘ لاک ڈاﺅن کے دوران لوگ اپنی فلاح و بہبود کے دوسرے پہلوو¿ں خاص طور پر ذہنی صحت کے مسئلے سے کس طرح نمٹ رہے ہیں اس حوالے سے معلومات ذہنی صحت کی سروسز نے فراہم نہیں کی ہیں جنہوں نے کورونا وائرس کی وبا کے بعد سے مریضوں کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی ہے بلکہ یہ معلومات منشیات کے غیرقانونی استعمال کے ایک تازہ جائزے سے حاصل ہوئی ہیں.
اگرچہ مختلف تنظیموں نے منشیات کے استعمال کے حوالے سے چند سروے ہی کیے ہیں لیکن اس سروے میں نہ صرف پوچھا گیا ہے کہ لوگ کون سی منشیات استعمال کر رہے ہیں بلکہ اہم سوال یہ تھا وہ انہیں کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ جواب دینے والوں کی اکثریت (71 فیصد) نے بتایا کہ وہ تفریح یا سکون کے لیے یہ منشیات استعمال کرتے ہیں یہاں یہ یاد دہانی اہم ہے کہ زیادہ تر لوگ اب بھی تفریح کے لیے منشیات استعمال کرتے ہیںیہ ایک ایسی بات ہے جو اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ عام طور پر منشیات کی زیادتی یا منشیات کے استعمال کے کسی دوسرے نقصان دہ پہلو کی خبریں دیتے ہیں اسی حقیقت کی جھلک علمی تحقیق میں بھی ملتی ہے جہاں تحقیق کے عمل کا جھکاومنشیات کے غلط استعمال کو بہتر طور پر سمجھنے کی طرف ہوتا ہے.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر آپ کو منشیات کا کوئی تجربہ نہیں ہے تو ایسی صورت میں آپ کو یہ فرض کر لینے پر معافی مل جائے گی کہ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس میں بہت زیادہ خطرہ ہے اور منشیات استعمال کرنے والے ہر لحاظ سے ذاتی نوعیت کے مسائل کا شکار ہو جائیں گے لیکن منشیات استعمال کرنے والے زیادہ تر لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتامنشیات استعمال کرنے والوں کے معاملے میں حالیہ مہینوں میں جو تبدیلی آئی ہے وہ ایسے لوگوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہے جو انہیں ذہنی صحت کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کرتے ہیں.
کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے پانچ افراد میں سے ایک منشیات استعمال کرتا تھا لیکن وبا کے دوران ہر دو میں سے ایک نے ان کا استعمال شروع کردیا ہے سروے کے دوران جواب دینے والوں نے ذہنی صحت کے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان میں بے چینی، حقیقت سے فرار، دباو¿ یا تنہائی شامل ہیں یہ بات قابلِ فہم ہے کہ مستقبل کے غیریقینی حالات کے ساتھ ساتھ بعض افراد مالی، تعلقات کے مسائل، خود اعتمادی اور مزاج کے مسائل سے بھی دوچار ہوں گے.
یہ وہ مسائل ہیں جنہیں ذہنی صحت کی سروسزکو حل کرنا ہے لیکن کووڈ 19 کے دوران ان سروسز نے پسپائی اختیار کی اور صرف ا±ن افراد کو ترجیح دی جا رہی ہے جو بہت زیادہ بیمار ہیں دوسرے تمام افراد کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے ان لوگوں کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ انہیں ذہنی صحت کے مسائل پر قابو پانے میں کب مدد ملے یا کبھی ملے گی بھی یا نہیں، تو ان میں سے کچھ نے ناگزیر طور پر منشیات کا استعمال شروع کر دیا.
ابتدا میں یہ لاپروائی یا احمقانہ طور پر خطرہ مول لینے کا عمل دکھائی دیتا ہے پر یہ ویسا نہیں ہے بعض منشیات ایسی علامات کو کم کرتی ہیں جن کا لوگوں کو سامنا ہوتا ہے مسئلہ یہ ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ ہر کسی کو سکون دیں گی دوا کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہو سکتا ہے تاکہ اس کے دوسرے مضر اثرات کا خطرہ پیدا نہ ہو جیسے کہ سانس بند ہو جاناساتھ ہی یہ بھی ہے کہ کئی منشیات پر جسمانی یا نفسیاتی طور پر انحصار کی عادت بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی جس سے ذہنی صحت کے وہ مسائل بڑھ جاتے ہیں جنہیں یہ لوگ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.
اگر انہیں علم ہے اور وہ ذہنی صحت کے مسائل کی وجہ سے منشیات پر انحصار کی عادت بن جانے کا اعتراف کرتے ہیں لیکن انحصار کا یہ مسئلہ حل کرنے کے معاملے پر ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت آسانی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی ہے منشیات کا استعمال چھوڑنے کی صورت میں بےچینی، نیند میں خلل، افسردگی اور گھبراہٹ کے مسائل کا سامنا ہوگا. یہ وہی علامات ہیں جنہیں ختم کرنے کے لیے انہوں نے منشیات کا استعمال شروع کیا‘وہ لوگ جنہوں نے منشیات پر انحصار کرنا شروع کردیا ہے ان کا مستقبل تاریک ہے اور پابندیوں کے خاتمے کے بعد انہیں کوئی پیشہ ورانہ مدد مل سکے گی خام خیالی ہی ہے اور یہ اثرات وائرس کے اثرات سے زیادہ خطرناک ثابت ہونگے.
ادھر بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے قرضے میں اضافہ ہو رہا ہے اور ذہنی صحت کی سروسز کی خدمات صرف ان افراد کو ترجیح دیتی رہیں گی جن کی دماغی بیماری بحرانی نوعیت کی ہے ایسا ہونے کی وجہ قومی خزانے پر دباﺅ اور بجٹ میں کٹوتیاں ہیںان لوگوں میں سے انہیں بروقت مدد مل جائے گی جن کے بارے میں سمجھا جائے گا کہ وہ معاشرے کے بڑے حصے کے لیے خطرہ ہیں حالانکہ ذہنی بیماری کی صورت میں سب سے زیادہ خطرہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی بجائے خود کو نقصان پہنچانے یا خود کشی کا ہوتا ہے.
اس نئی دنیا میں غیرقانونی منشیات سے اپنے طور پر علاج ہی وہ واحد راستہ ہو سکتا ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے کھلا ہو گا آخرکار ادویات تک رسائی آسان ہے اور ان سے فوری سکون ملتا ہے، بالکل اس کے برعکس جو ذہنی صحت کا سرکاری شعبہ فراہم کرتا ہے نوح انسانی کے لیے یہ وہ نقصان ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوسکے گا. دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے متنبہ کیا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا ایک نئے خطرناک مرحلے سے گزر رہی ہے ایک ورچوئل نیوزکانفرنس میں ڈبلیو ایچ او کے چیف ٹیڈروس ایدھینوم کا کہنا ہے کہ دنیا ایک نئے اور خطرناک مرحلے سے گزر رہی ہے لیکن وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے.
عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر رکن ملکوں کو انتہائی چوکنا رہنے کا کہنا ہے وائرس کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات سے ملکوں کو معاشی نقصان ہوا ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اس آئسولیشن اور لاک ڈاﺅن جیسے اقدامات سے پریشان نہیں ہونا چاہیے. ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ وائرس امریکہ، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے‘کورونا کے خلاف جاری جنگ میں سماجی دوری اور سیلف آئسولیشن واحد ہتھیار ہیں جنہیں نافذ کرنے کے لیے دنیا کے اکثر ملکوں میں لاک ڈاﺅن کیا جا رہا ہے.