کرونا وائرس سے صحتیاب مریض دماغی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں

  • May 20, 2020, 4:13 pm
  • Featured
  • 154 Views

کرونا وائرس نے دنیا بھر کے طبی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور باوجود اس کے کہ اس سے صحتیاب ہوجانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہیں، اس کے دیرپا اثرات بھی کم خطرناک نہیں ہیں۔

حال ہی میں برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس ذہنی امراض کی شرح میں اضافہ کردے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض سے صحتیاب ہوجانے والے طویل عرصے تک مختلف ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار رہ سکتے ہیں۔

برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے صحتیاب ہونے والا ہر 3 میں سے 1 شخص پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر (حادثے کے بعد اس کا تناؤ اور خوف)، ڈپریشن یا اینگزائٹی کا شکار ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے لیے ماہرین نے سنہ 2002 کے سارس وائرس، 2012 کے مرس وائرس اور موجودہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کا جائزہ لیا، زیادہ توجہ سارس اور مرس وائرس سے متاثرہ افراد پر رکھی گئی۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے حوالے سے اس کے اثرات مبہم ہوسکتے ہیں کیونکہ اول تو کرونا وائرس کا پھیلاؤ ان دونوں وائرسز سے کہیں زیادہ ہے، علاوہ ازیں کرونا وائرس سے صحتیابی کے بعد کے اثرات فی الحال نامعلوم ہیں، اور یہ اثرات سارس اور مرس جیسے ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔

تحقیق میں کہا گیا کہ ذہنی امراض کا سامنا کرونا وائرس کے تمام مریضوں کو نہیں ہوگا لیکن چونکہ اس کا شکار افراد کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذہنی امراض کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔

ماہرین کے مطابق کرونا وائرس سے صحتیاب تقریباً 15 فیصد افراد کم از کم ایک سال تک ذہنی امراض کا شکار رہیں گے جس سے وہ صحتیابی کے بعد بھی معمول کی زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکیں گے۔

تحقیق میں برطانیہ کی ایک تنظیم کوویڈ ٹراما رسپانس ورکنگ گروپ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے صحتیاب مریض ذہنی امراض کا شکار ہونے والے گروپس میں پانچواں گروپ ہوں گے۔

صحتیاب مریضوں کے علاوہ جو 4 گروپس ذہنی امراض سے متاثر ہوں گے ان میں طبی عملہ، وہ افراد جنہوں نے اس مرض کے ہاتھوں اپنے پیاروں کو کھو دیا، وہ جو پہلے سے دماغی مسائل کا شکار تھے اور وہ جو آئسولیشن میں رہتے ہوئے مختلف مسائل کا شکار ہوئے جیسے گھریلو تشدد، شامل ہیں۔