بوس و کنار کی ویڈیو: وزیرستان میں دو لڑکیاں قتل

  • May 17, 2020, 12:47 am
  • Breaking News
  • 530 Views

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں پولیس کے مطابق بوس و کنار کی ویڈیو بنانے کے الزام میں دو خواتین کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیاگیا ہے۔ ان عورتوں کی سوشل میڈیا پر ایک لڑکے کے ساتھ کسنگ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔

تقریبا 52 سیکنڈز کی اس مختصر ویڈیو میں ایک نوجوان لڑکے کے ساتھ دائیں بائیں تین سیاہ برقعوں میں لڑکیاں کھڑی نظر آ رہی ہیں اور باتوں باتوں میں یہ ان سے بوس وکنار شروع کر دیتا ہے۔ وہ ایسا دو کے ساتھ کرتا ہے لیکن تیسری خاتون بھاگ جاتی ہے۔

پولیس کے ایک سنینئر اہلکار نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ لڑکیوں کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اور وہ کچھ عرصہ قبل وزیرستان کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے بعد شمالی وزیرستان کے علاقے شام پلین گڑیوم میں منتقل ہوگئی تھیں۔ اہلکار کے مطابق شام پلین گڑیوم میں ع نامی لڑکے کے ساتھ ان لڑکیوں کی جان پہچان بنی تھی۔ اس لڑکے کا تعلق بھی شمالی وزیرستان کے علاقے شام پلین گڑیوم سے بتایا جاتا ہے۔

ویڈیو میں یہ نوجوان ان لڑکیوں سے پشتو میں پوچھتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے آئیں ہیں جس پر لڑکی نے جواب دیا کہ وہ ویسے ہی آئی ہیں آپ کے لیے تو نہیں آئی ہیں۔ ویڈیو میں لڑکا بتا رہا ہے کہ کیا شام کے وقت وہ دوبارہ آئیں گی تو ایک لڑکی کہتی ہے کہ یہ جگہ مناسب نہیں اور دور سے دوسرے لوگ بھی دیکھ رہے ہیں۔ ویڈیو سے واضح نہیں کہ اس لڑکے اور لڑکیوں کا آپس میں کیا تعلق تھا۔

واقع کے خلاف رزمک تھانے میں پولیس ایس ایچ او لوئی دارز خان نے ایف آر درج کروائی ہے۔ ایف آر میں بتایاگیا ہے کہ شام پلین کے علاقے میں 18 اور 16 سالہ لڑکیوں کو اپنے ہی چچا زاد بھائی نے فائرنگ کر کے مبینہ طور پر ’غیرت کے نام‘ پر قتل کر دیا ہے۔ دونوں لڑکیاں آپس میں چچا زاد بہنیں بتائی جاتی ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ واقع کے بعد دونوں لڑکیوں کا خاندان ان کی لاشیں لے کر واپس جنوبی وزیرستان منتقل ہوگئے ہیں۔ ایف آئی ار کے مطابق ویڈیو میں دیکھے جانے والا نوجوان کی تلاش جاری ہے مگر بتایاگیا ہے کہ وہ علاقہ چھوڑ کر کہیں چھپ گیا ہے یا دوسرے شہر چلا گیا ہے۔

وسری جانب جنوبی وزیرستان کے پولیس نے بتایا ہے کہ دونوں لڑکیوں کے لاشوں کو رات کے وقت ان کے خاندان والوں نے ایک نامعلوم مقام پر دفنا دیاگیا ہے البتہ پولیس نے قبروں اور ملزم کی تلاش شروع کی ہے مگر ابھی تک نہ قبروں کا سراغ ملا ہے اور کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ البتہ پولیس کا دعوی ہے کہ لوگوں کی پہچان ہوچکی ہے اور بہت جلد ان کو کامیابی ملے گی۔

سابق قبائلی علاقوں میں جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں اس سے پہلے بھی ’غیرت کے نام‘ پر اس قسم کے واقعات ہوتے تھے مگر اس وقت کے ایف سی آر قانون کے تحت قتل ہونے والوں کی رپورٹ سامنے نہیں آتی تھی۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے اندر ’غیرت کے نام‘ پر قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار نہیں کیاگیا۔

خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد پہلی بار ’غیرت کے نام‘ پر قتل کے واقعات کے ایف آئی آر درج ہونا شروع ہوئی ہے۔ مگر آج بھی ایک خوف موجود ہے اور اس طرح کے واقعات کی کوئی بھی رپورٹ نہیں کرتا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق قبائلی اضلاع میں اس طرح کے واقعات نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورا قبیلہ اپنے عزت پر داغ لگنا سمجھتا ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے مابین ہلاکتوں کا زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس واقع کے بعد وزیرستان کے دونوں حصوں میں لوگوں میں پریشانی پائی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو چپ رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔