لاک ڈاؤن سے موچی بھی متاثر، آمدنی 90 فیصد کم ہوگئی

  • March 31, 2020, 9:06 pm
  • COVID-19
  • 110 Views

سندھ بھر میں کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے حکومتی لاک ڈاؤن کے سبب روشنیوں کے شہر کراچی میں 95 فیصد موچیوں کے ٹھیے اور دکانیں بند ہیں، اکثر موچی بیروزگاری کے خدشے کے سبب ایک ہفتہ قبل ہی آبائی علاقوں کو چلے گئے ہیں، چند موچی ٹھیے کھول کر لاک ڈاؤن کے نرمی کے اوقات میں گاہگوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

یہ بات ایف سی ایریا میں نیم کے درخت کے نیچے رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں موچی عطااللہ نے ایکسپریس کو گفتگو میں بتائی انھوں نے بتایا کہ موچیوں کی آمدنی میں 90 فیصد کمی آگئی ہے جس کی وجہ سے وہ پختون برداری کی پہچان نسوار فروخت کرنے پر مجبور ہیں ریسٹورنٹ کی بندش سے ان کوکھانے کے حصول میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے، کئی موچی راشن کے حصول کے لیے مخیر حضرات اور فلاحی اداروں سے رجوع کررہے ہیں ،کورونا وائرس کی وبائی صورتحال اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے عطااللہ نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا سے پوری دنیا کی طرح ہمارا ملک کی متاثر ہے۔

کورونا سے لاک ڈاؤن کا فیصلہ اچھا عمل ہے لیکن کاروبار بند ہونے سے موچیوں سمیت روزانہ اجرت پر کام کرنے والے سخت متاثر ہوئے ہیں شہر میں 95 فیصد موچیوں کے ٹھیے اور دکانیں بند ہیں لاک ڈاؤن ہونے کی اطلاعات ملتے ہی جب انٹرسٹی بسیں چل رہی تھیں تو بیشتر موچی بیروزگاری کے خدشے کے سبب ٹھیے بند کرکے آبائی علاقوں کو چلے گئے ہیں یہ وہ افراد تھے جن کے پاس کرایے کے پیسے موجود تھے ہمارے پاس کرایہ نہیں تھا،اس لیے اپنے آبائی علاقے کو نہیں گئے انھوں نے بتایا کہ اس وقت موچیوں کے پاس جمع رقم ختم ہورہی ہے، ریسٹورنٹ بند ہونے سے کھانا بھی نہیں کھاسکتے ، دودھ اور ڈبل روٹی کھاکر گزارہ کررہے ہیں جن کے پاس کچھ راشن ہے وہ کھانا بنا لیتے ہیں انھوں نے کہا کہ ہمارا کام تو پہلے ہی تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے خراب ہوگیا تھا کیونکہ سب زیادہ کام اسکول بیگز کی مرمت کا ہوتا تھا۔
ہریوسی میں 15سے20موچی موجود ہوتے ہیں،عطااللہ

ایف سی ایریا میں نیم کے درخت کے نیچے رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں موچی عطااللہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ کراچی ملک کا معاشی حب ہے،یہ شہر ایک گلدستہ ہے جس میں ہر مذہب، فرقے،قوم اور برداری سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں، یہ شہر ہر پردیسی کو پناہ دیتا ہے،اگر کوئی شخص محنت کرنا جانتا ہو یا اسے کوئی ہنر آتا ہو وہ باعزت طریقے سے اپنی روزی کماسکتا ہے۔

شہر کی ہر یونین کونسل میں اندازے کے مطابق 15سے 20 موچی کام کرتے ہیں، زیادہ تر موچی خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ یا اطراف کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں موچی اجتماعی طور پر کرایے کا ایک کمرے جسے ’’دیرا‘‘ کہتے ہیں میں رہتے ہیں، ہم موچی کا کام نسل در نسل کرتے آرہے ہیں ایک خاندان کا ایک فرد 6 ماہ یہ کام کرتا ہے، پھروہ 6 ماہ کے لیے اپنے آبائی علاقے باجوڑ چلاجاتا ہے اس موچی کے گھر کا دوسرا فرد کام پر آجاتا ہے یا وہ کام اپنے رشتہ دار کو ٹھیکہ پر سونپ دیتے ہیں۔

ماسک پہن کر کام کرتا ہوںگاہکوں کو کہتا ہوں فاصلہ رکھ کرکھڑے ہوں،عطااللہ

عطااللہ نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے خدشے پر کام کے دوران میں بھی ماسک کا استعمال کررہا ہوں اور لوگوں سے کہتاہوں کہ وہ فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوں اور ماسک ضرور پہنیں انھوں نے بتایا کہ جن موچیوں کے پاس پیسے ہیں ان میں کچھ نے سبزی اور پھل کی فروخت کا کام شروع کردیا ہے انھوں نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ سے اپیل کی کہ وہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو باعزت طریقے سے راشن فراہم کردیں تاکہ ہم کچھ دن گزارہ کرلیں۔

حالات اچھے ہوں تو ہر موچی دن بھر میں 1000روپے کمالیتا ہے

حالات اچھے تھے تو ہر موچی دن میں 12سے 14گھنٹے محنت کرکے 800سے 1000روپے کمالیتا ہے، ہماری کم سے کم اجرت 10سے لیکر 100 روپے تک مختلف کام کے حوالے سے ہوتی ہے،کسی تہوار کے علاوہ کوئی چھٹی نہیں ہوتی اس کے علاوہ ہم کئی اقسام کی نسوار فروخت کرتے ہیں جن میں کالی، ہری، کشمیری اور دیگر نسوار شامل ہیں ان کی ایک پوڑی 10 سے 20روپے کی فروخت ہوتی ہے،یہ ہماری اضافی آمدنی ہوتی ہے جس سے ہمیں 200 روپے کی بچت ہوتی ہے جس سے ہم اپنے کھانے اور دیگر ضروریات کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔

جوتوں، چپلوں، سینڈل ،پرس اور بیگ کی مرمت کیساتھ پالش بھی کرتے ہیں

عطا اللہ نے گفتگو میں بتایا کہ زیادہ تر موچی ریسٹورنٹس پر 3 وقت کا کھانا کھاتے ہیں یا اجتماعی طور پر پیسے ملاکر رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بناتے ہیں، ہم جوتوں، چپلوں، سینڈل ،پرس اور بیگز کی مرمت کے ساتھ ان پر پالش بھی کرتے ہیں انھوں نے بتایا کہ صبح کے وقت زیادہ تر دفتر جانے والے افراد پالش کراتے ہیں اور پھر دن بھر خواتین اور بچے اپنے جوتوں،چپلوں اور بیگز کی مرمت کراتے ہیں۔

خواتین اوربچوں نے موچیوں کے ٹھیوں پرآناچھوڑ دیا

عطااللہ نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے خواتین اور بچے کچھ کھلے ہوئے موچی کے ٹھیوں پر بھی نہیں آرہے ہیں، چند ایک گاہگ آجاتے ہیں، شام 5بچے سے پہلے وہ بھی ٹوٹی ہوئی چپل پر ٹانکا لگالیتے ہیں، جوتوں اور بیگز کی مرمت کاکام نہ ہونے کے برابر ہے،عطااللہ نے بتایا کہ لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں وہ جوتے کہاں سے مرمت کرائیں گے، انھوں نے بتا یا کہ موچی کا کام بند یا کم ہونے کی وجہ سے نسوار کی فروخت بڑھ گئی ہے اور اب وہ لوگ جو پان اور گٹکا کھاتے ہیں ان اشیا کی قیمت بڑھنے کی وجہ وہ یہ کم کھارہے ہیں اس لیے ان لوگوں نے بھی خشک کالی نسوار کاا ستعمال شروع کردیا ہے انھوں نے بتایا کہ نسوار کی سپلائی بھی محدود ہے امکان ہے کہ اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔