سرکاری زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 43 کروڑ ڈالرز کا اضافہ

  • December 5, 2019, 6:05 pm
  • National News
  • 146 Views

اسلام آباد (ویب ڈیسک) : وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ بزنس ٹائیکون ملک ریاض سے وصول کیے گئے کروڑوں پاؤنڈ برطانیہ سے پاکستان منتقل کر دئیے گئے ہیں۔جس کے بعد اسٹیٹ بینک کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ سرکاری زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 43 کروڑ ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد سرکاری زرِ مبادلہ ذخائر 9 ارب 11کروڑ ڈالر ز ہو گئے ہیں۔
مجموعی ذخائر 15 ارب 99کروڑ 32 لاکھ ڈالرز ہو گئے ہیں جب کہ کمرشل بینکوں کے پاس 6 ارب 88 کروڑ ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں۔خیال رہے اس سے قبل قومی اسمبلی کو بتایا گیا تھا کہ ملک میں 27 نومبر 2019ء تک زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب 95 کروڑ 54 لاکھ ڈالر ہیں‘ 2019ء میں کرنٹ اکائونٹ بیلنس میں واضح طور پر بہتری آئی ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران معین وٹو کے زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے سوال کے جواب میں قومی اسمبلی کو وزارت خزانہ کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ مالی سال 2013ء میں سٹیٹ بنک اور قومی بنکوں کے پاس مجموعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر 11 ارب ڈالر ‘ 2014ء میں 14 ارب 14 کروڑ سے زائد ‘ 2015ء میں 18 ارب 29 کروڑ سے زائد ‘ 2016ء میں 23 ارب 9 کروڑ سے زائد ‘ 2017ء میں 21 ارب 40 کروڑ ڈالر سے زائد‘ 2018ء میں 16 ارب 38 کروڑ سے زائد ‘ 2019ء میں 14 ارب 47 کروڑ سے زائد‘ جولائی 2019ء 15 ارب 14 کروڑ ڈالر‘ اگست 2019ء میں 15 ارب 64 کروڑ ڈالر سے زائد ‘ ستمبر 2019ء میں 15 ارب 22 کروڑ ڈالر سے زائد ‘ اکتوبر 2019ء میں 15 ارب 42 کروڑ ڈالر سے زائد جبکہ 27 نومبر 2019ء تک سٹیٹ بنک کے پاس 9 ارب 9 کروڑ 27 لاکھ ڈالر جبکہ قومی بنکوں کے پاس 6 ارب 86 کروڑ 27 لاکھ ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں جو مجموعی طور پر 15 ارب 95 کروڑ 54 لاکھ روپے بنتے ہیں۔

قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 14 اکتوبر 2016ء کو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب 50 کروڑ امریکی ڈالر تھے۔ زرمبادلہ کے کل ملکی ذخائر 17 اگست 2018ء کو 16 ارب 70 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 27 نومبر 2019ء کو 15 ارب 95 کروڑ امریکی ڈالر تھے۔ قومی اسمبلی کو مزید بتایا گیا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تبدیلی اس کی ادائیگیوں کی صورتحال کی عکاس ہوتی ہے۔ اگرچہ مالی سال 2018ء میں جب زر اور مالی اکائونٹ سے رقوم کے بہائو کرنٹ اکائونٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے ناکافی تھے جو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر منتج ہوا۔ اس کے مقابلے میں 2019ء میں کرنٹ اکائونٹ بیلنس میں واضح طور پر بہتری آئی ہے۔