بلوچستان اسمبلی سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے حوالے سے رقبے کی بنیاد پر حق ادا کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور

  • December 22, 2018, 12:48 am
  • National News
  • 79 Views

کوئٹہ(ویب ڈیسک) بلوچستان اسمبلی میں پاک چین اقتصادی راہداری کی مد میں کی جانے والی غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے سے قومی کمیشن کی تشکیل اور سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے حوالے سے تفصیلات اور رقبے کی بنیاد پر حق ادا کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعے کے روز تقریباً پچاس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیرصدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں جمعیت العلماء اسلام کے رکن سید فضل آغا نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گزشتہ اجلاس میں بھی نشاندہی کی تھی آج پھر کہہ رہے ہیں حکومتی اراکین ا یوان کو سنجیدگی سے لیں اور ایوان میں اپنی موجودگی اور کارروائی کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں جن محکموں سے متعلق سوالات ہوں ان محکموں کے سیکرٹری صاحبان کو اپنی موجودگی یقینی بنانی چاہئے انہوں نے کہا کہ ہم جو سوالات جمع کراتے ہیں ان کے جوابات بروقت نہیں دیئے جاتے اگر حکومت اسی طرح سے چلانی ہے تو پھر تمام ایم پی اے صاحبان کو کہہ دیں کہ وہ گھر پر بیٹھ جائیں ۔اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران بھی سید فضل آغا ، اختر حسین لانگو اور ثناء بلوچ نے جوابات نہ آنے پر احتجاج کیا بعدازاں سپیکر نے وقفہ سوالات اگلے اجلاس تک ملتوی کرنے کی رولنگ دی ۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے مشترکہ تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے مورخہ 13دسمبر2018ء کی رولنگ اور کارروائی کے تناظر میں بلوچستان میں پینے کے صاف پانی سے محرومی ، اور 70فیصد آبادی کو پانی کی عدم فراہمی پر عوام میں احساس محرومی اور تشویش پائی جاتی ہے اس لئے اسمبلی کی کارروائی روک کر اس اہم نوعیت کے عوامی مسئلے کو زیربحث لایا جائے ۔تحریک التواء کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ پانی بنیادی انسانی ضرورت ہے جس معاشرے میں انسان کو پینے کا صاف پانی نہ ملے وہاں اسے اچھی خوراک اور دیگر سہولیات کیسے دستیاب ہوں گی پینے کے صاف پانی ، تعلیم ، صحت ، روزگار اور رہائش کی فراہمی آئین کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے مگر افسوس ہے کہ جو لوگ حکومت میں آتے ہیں وہ آئین کو کھول کر دیکھتے بھی نہیں کہ ہمیں یہ حکومت کس لئے ملی ہے انہوں نے کہا کہ بھاگ ناڑی میں پانی کے مسئلے کا اگر سپریم کورٹ نوٹس نہ لیتی تو سات کروڑ روپے بھی جاری نہیں ہوتے صاف پانی نہ ملنے سے لوگوں میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔بعدازاں سپیکر نے تحریک التواء کی منظوری کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک التواء پر 24دسمبر کے اجلاس میں بحث کی جائے گی ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے سی پیک سے متعلق قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور سی پیک کی مدمیں ملک بھر میں62ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی گئی ہے لیکن بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے صوبہ کے عوام میں احساس محرومی پائی جاتی ہے لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ سی پیک کی مد میں کی جانے والی غیر منصفانہ تقسیم کی بابت فوری طور پر ایک قومی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کرے بلوچستان کو سی پیک منصوبے کی تفصیلات اور رقبے کی بنیاد پر اس کا حق ادا کرنے کو یقینی بنائے تاکہ صوبہ کے عوام میں پائی جانے والے احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہو ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان اگرچہ آئین کے تحت ایک انتظامی صوبہ ہے مگر اپنے آپ میں یہ ایک بہت بڑا خطہ ہے جس کی اپنی ایک تاریخی اور جغرافیائی اہمیت ہے ہم فوقیت اور برتری کی بات نہیں کرتے برابر ی کی بات کرتے ہیں کم از کم برابری تو دی جائے بلوچستان میں سیاسی سماجی اورمعاشی مسائل موجود ہیں جو حل نہیں ہوتے اور ہر دس پندرہ سال کے بعد حکمران کا معافی نامہ آجاتا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ کہا جارہا تھا کہ سی پیک کی بدولت پاکستا ن ایشیا کا ٹائیگر بنے گا اور بلوچستان پاکستان کا ٹائیگر بن کرابھرے گا مگر بلوچستان کو اس کا حصہ اور حق نہیں ملا سابق دور حکومت میں 52ایم او یوز ہوئے اکثر بلوچستان سے متعلق تھے مگر بلوچستان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا حتیٰ کہ خود گوادر کو بھی نظر انداز کیا گیا آج تک ہم نہیں جانتے کہ گوادر پورٹ سے متعلق چینی کمپنی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس میں کیا ہے اس معاہدے کو اس ایوان میں لایا جائے ۔ ثناء بلوچ نے کہا کہ پاکستان کا حصہ مشرقی ہے ایک مغربی اس وقت جو مشرقی حصہ ہے وہاں صحت ، تعلیم ، روزگار ، مواصلات ، صنعتی ترقی ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہیں جبکہ مغربی حصہ جو فاٹا اور ژوب سے شروع ہوتا ہے اس میں مسائل ہی مسائل ہیں بلوچستان میں کثیر الجہتی غربت 86فیصد ہے فاٹا میں کثیر الجہتی غربت78فیصد ہے ۔ بلوچستا ن میں بے روزگاری ہے یہاں کے 62فیصد لوگ بجلی سے محروم ہیں 88فیصد لوگ توانائی کے منصوبوں سے محروم ہیں انسانی ترقی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں سی پیک میں بلوچستان کی کنٹری بیوشن سب سے زیادہ ہے 63سے64فیصد رقبہ ہمارا ، ڈیپ سی پورٹ ، طویل راستہ اور طویل ساحلی پٹی کی صورت میں ہماری کنٹری بیوشن سب سے زیادہ ہے مگر اس کے مقابلے میں ہمیں سی پیک سے بہت محدود فنڈ ملے اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام معاملات کو دیکھنے اور حقائق کا پتہ لگانے کے لئے سی پیک سے متعلق نیشنل کمیشن بنایا جائے جو تما معاملات کو دیکھے اس کمیشن میں ہر صوبے سے دو دو اراکین لئے جائیں ، سی پیک کے نتیجے میں انتقال آبادی کے مقامی لوگوں پر اثرات روکنے کے لئے خصوصی قانون سازی کی جائے ۔ سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ثناء بلوچ نے ایک انتہائی اہم مسئلے پر قرار داد پیش کی ہے جس کی ہر بلوچستانی بھرپور حمایت کرتا ہے ۔پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ سی پیک منصوبے کے تحت یہاں انرجی پارک بننے تھے ہماری حکومت میں سی پیک میں شامل کئے جانے والے ماس ٹرانزٹ ٹرین اور کوئٹہ کو پٹ فیڈر کینال سے پانی کی فراہمی کے منصوبے موجودہ حکومت نے ختم کردیئے ہیں ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم ملک کا حصہ نہیں سی پیک کے معاہدات کی تفصیل ایوان کو دی جائے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ سی پیک پر ہر بلوچستانی کا موقف ایک ہی ہے پچھلی حکومت میں ژوب میں ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کے منصوبوں کا افتتاح کرکے اسے سی پیک کا نام دیا اور پوری قوم سے غلط بیانی کی گئی پٹ فیڈر کینال سے پانی کی فراہمی اور ماس ٹرانزٹ سی پیک منصوبے میں کبھی شامل نہیں تھے اگر ایسا ہے تو کاغذی ثبوت فراہم کئے جائیں جس پر پاکستان اور چین دونوں کے حکام کے دستخط ہوں نواز شریف نے بد اعتمادی کی پچاس سے ساٹھ ارب ڈالر پنجاب میں خرچ ہورہے ہیں حقائق کو منظر عام پر لایا جانا چاہئے ۔متحدہ مجلس عمل کے سید فضل آغا نے کہا کہ سی پیک میں بلوچستان کی حق تلفی میں نہ صرف وفاق بلکہ صوبائی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں ہمیں ستر سال سے نظر انداز کیا جارہا ہے حکمران وزارت اعلیٰ اور کرسی کی خاطر عوام کی حق تلفی کرتے ہیں سی پیک کے حوالے سے ایم او یو کو منظر عام پر لایا جائے اور اسلام آباد میں بیٹھے لوگ خواب خرگوش سے اٹھیں ۔ بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ چین میں پاکستانیوں کو بہت محدود کیا جاتا ہے لیکن جب وہ یہاں آتے ہیں تو ہم انہیں مکمل آزادی فراہم کرتے ہیں چین کو گوادر کی سرزمین چاہئے ہمیں اپنی زمین کا دفاع کرنا چاہئے ۔ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ قوم پرست اپنی حکومت میں خواب خرگوش میں تھے اب وقت گزر چکا ہے جب قوم پرستوں کی بات مانی جاتی تھی تو انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے منصوبے وفاق سے منظور کرائے ہمارا مطالبہ ہے کہ چین سے ہونے والے معاہدے کو ایوان میں لایا جائے ۔ بی این پی ( عوامی ) کے سید احسان شاہ نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے بہت سے خواب دکھائے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ پچھلی حکومت سی پیک کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتی تھی لیکن اس منصوبے سے اب تک بلوچستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہمیں صوبے کے ساحل ،و سائل کے دفاع کے لئے ایک ہو کر مشترکہ جنگ لڑنی ہے بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے ملک و قوم کو اعتماد میں لئے بغیر سعودی حکومت سے مشروط طور پر ایک بھاری قرضہ لیا گیا ہے جس سے اسٹریٹجک اور معاشی اثرات ملک بالخصوص بلوچستان پر پڑیں گے لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ مشروط طو رپر لئے جانے والے اس بھاری قرضے کی تمام تر تفصیلات سے نہ صرف اس ایوان بلکہ ملک و قوم کو بھی آگاہ کرے ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ ماضی میں بھی ہم مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے کرتے رہے بلکہ ہم مختلف ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر بھی رہے اور ان سے بھی معاہدے کرتے رہے ماضی میں جتنے بھی معاہدے ہوئے خاص طو رپر 1979ء کے بعد امریکہ کے ساتھ ہم نے معاہدہ کرکے ہم اس کے سٹریٹجک پارٹنر بنے جس پر بڑی خوشیاں منائی گئیں کہ امریکہ کے اتحادی بننے کے بعد ملکی معیشت مضبوط اور ملک کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے اس وقت بھی ہمارے اکابرین نے یہ بات کی تھی کہ ان معاہدوں پر پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لیا جائے مگر بدقسمتی سے اعتماد میں لینے کی بجائے فیصلے مسلط کرنے کا نتیجہ ہم دیکھ چکے ہیں امریکہ کا ساتھ دینے کے بعد ہمارے ملک کے مسائل میں اضافہ ہوا تخریب کاری ، دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور آج ہمارا وہ سٹریٹجک پارٹنر ہم سے حساب مانگ رہا ہے کہ اس نے ہمیں فنڈزیادہ دیئے اور ہم نے اتنے کام نہیں کئے جبکہ ہماری حکومت کا موقف ہے کہ ہماری قربانیاں بہت زیادہ ہیں اور اب سعودی عرب سے فنڈز لئے جارہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے معاہدوں کو پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے لایا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں ہم ایک بار پھر کسی بہت بڑی مشکل کا شکار نہ ہوجائیں اور خدانخواستہ ایک بار پھر ملک کو جانی اور مالی نقصانات کا سامنا نہ کرنا پڑے انہوں نے کہا کہ جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو ہم نے اس وقت کہا کہ یہ امریکہ کے مفادات کی جنگ ہے قطعی طو رپر کفر اور اسلام کی جنگ نہیں انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں تمام ممالک اپنے مفادکے لئے معاہدے کرتے ہیں مگر ان معاہدات میں عوام کے مفاد کے ساتھ ساتھ ان کو عوام کے سامنے بھی رکھا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم وفاق سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب سے فنڈز لینے سے قبل پارلیمنٹ اور پوری قوم کو اعتماد میں لیا جائے کہ سعودی عرب سے کن شرائط پر یہ پیسے مل رہے ہیں اور ہم نے کن شرائط کے تحت یہ پیسے واپس کرنے ہیں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چائنہ کے مابین سی پیک سے متعلق طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات سے تاحال صوبے کے عوام حتیٰ کہ اراکین اسمبلی کو بھی آگاہ اور اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے جس کی وجہ سے عوام اورا راکین اسمبلی میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ سی پیک کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات کی فراہمی اور اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے کو یقینی بنائے تاکہ صوبے کے عوام اور اراکین اسمبلی میں پائی جانے والی تشویش کاازالہ ممکن ہو ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کاروبار کا ایک عالمی اور مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی کاروبار میں دونوں فریقین تمام حالات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں جس کے بعد کوئی کاروبار ہوتا ہے لیکن ہمیں آج تک یہ نہیں بتایاگیا کہ سی پیک میں ہمارے لئے کیا ہے حکومت اس حوالے سے معاہدوں کو ایوان میں لائے اور بتایا جائے کہ چین کے ساتھ ہماری قسمت کافیصلہ کس طرح اور کس بنیاد پر کیا گیا ہے ہمیں بتایا جائے کہ مغربی روٹ میں کیا ہے کیونکہ میری اطلاعات کے مطابق سی پیک میں اب تک صرف ایک پرائمری سکول کا منصوبہ بلوچستان کو دیا گیا ہے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ سی پیک کے مسئلے پر بلوچستان میں آباد تمام اقوام نہ صرف متحد ہیں بلکہ ان کا موقف ایک ہے اور ان سب کا یہ مطالبہ ہے کہ سی پیک معاہدے کو عوام کے سامنے لایا جائے صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے نواب محمد اسلم رئیسانی کی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جب میں نواب محمد اسلم رئیسانی کی کابینہ میں وزیر تھا تب بھی نواب رئیسانی نے بلوچستان کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد کی جب نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بنے تو صورتحال یہ تھی کہ ہمیں تنخواہوں کے لئے بھی اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا تھا تاہم ان کی کوششوں سے این ایف سی ایوارڈ اور پھر 18ویں ترمیم کے تحت بلوچستان کو اربوں روپے ملنا شروع ہوئے نواب رئیسانی نے ریکوڈک منصوبے پر صوبے کے مفادات کا بھرپور انداز میں تحفظ کرتے ہوئے تمام تر دباؤ کے باوجود ریکوڈک پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔انہوں نے کہا کہ جب ہم گزشتہ دور میں وفاق سے یہ پوچھتے تھے کہ سندھ اور پنجاب میں سی پیک کے تحت کام ہورہے ہیں تو بتایا جائے کہ مغربی روٹ کے لئے کیا ہے تو ہمیں صرف تسلیاں دی جاتی تھیں مگر اب وزیراعلیٰ جام کمال خان نہ صرف ہر مسئلے پر کابینہ کو اعتماد میں لے رہے ہیں بلکہ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں واضح انداز میں یقین دلایا ہے کہ بلوچستان کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا بلکہ حقوق کے لئے ہرفورم پر آواز بلند کی جائے گی ۔ سابق صوبائی وزیر سید احسان شاہ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس سے پہلے یہاں منظور ہونے والی قرار دادوں کا انجام دیکھ چکے ہیں اس لئے امید نہیں کہ اس قرار داد پر کوئی عمل ہوگا کیونکہ جب ہم نے سی پیک معاہدے کی تفصیلات وفاق سے مانگیں تو ہمیں یہ تفصیلات دینے سے انکار کیا گیا تھا اب بھی امید نہیں کہ یہ تفصیلات سامنے لائی جائیں گی انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے دور میں کوئٹہ میں پیش آنے والے ایک انتہائی افسوسناک واقعے کو بنیاد بنا کر ہماری حکومت ختم کرکے گورنر راج لگادیا گیا جبکہ اصل وجہ ریکوڈک پر نواب اسلم رئیسانی کی جانب سے صوبے کے مفادات پر سمجھوتہ نہ کرنا تھا۔انہوں نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سے استدعا کی کہ وہ وفاق سے بات کرکے سی پیک معاہدے کو بلوچستان اسمبلی کے فلور پر لانے کے لئے کردار اد اکریں بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ اوررکن اسمبلی حاجی محمد نواز خان کی عدم موجودگی پر ڈپٹی سپیکر نے ان کی دو الگ الگ قرار دادیں آئندہ اجلاس کے لئے موخر کردیں ۔پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے پوائنٹ آف آرڈ رپر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہزار گنجی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد حکومت نے کمیٹی تشکیل دی تھی جو کہ تاحال غیر فعال ہے کمیٹی کو فعال کرکے مسئلے کا حل نکالا جائے صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے ایوان کو آگاہ کیا کہ وہ اسلام آباد میں تھے جس کی وجہ سے کمیٹی فعال نہیں ہوسکی اب وہ واپس آچکے ہیں صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ کمیٹی کو فعال کرنے کے بعد زمینداروں کے ساتھ مل کر زراعت کے حوالے سے مسائل کا حل نکالیں گے ۔ بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے ایوان کی توجہ کیوڈی کی نو تشکیل شدہ گورننگ باڈی میں اپوزیشن اراکین کو نظر انداز کرنے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ کیوڈی اے کی گورننگ باڈی میں 20ممبران ہیں جن میں سے کسی کا تعلق بھی اپوزیشن سے نہیں اپوزیشن جماعتوں کے کوئٹہ سے منتخب ہونے والے اراکین کو گورننگ باڈی میں نمائندگی دی جائے ۔پاکستان تحریک انصاف کے رکن مبین خان خلجی نے ایوان کی توجہ کوئٹہ شہر میں صفائی کی ابتر صورتحال کی جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایوان کو شہر بھر کے کونسلران کو فراہم کئے جانے والے خاکروبوں کی فہرست فراہم کی جائے اور کوئٹہ شہر میں بنائے جانے والے ہسپتالوں اور نئی عمارتوں میں بلڈنگ کوڈ کے قوانین کی خلاف ورزی کے خلاف کارروائی کی جائے ۔اجلاس میں 18دسمبرکی نشست میں باضابطہ شدہ تحریک التواء پر بحث کا آغا زکرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ 13دسمبرکوکوئٹہ کے علاقے ماڈل ٹاؤن سے ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو اغواء کیا گیا جبکہ گزشتہ تین ماہ میں چمن میں بھی اغواء ، قتل اور بھتہ خوری کے واقعات ہورہے ہیں کوئٹہ شہر میں ایک بار پھر سے امن وامان کی صورتحال خراب ہورہی ہے منشیات فروشی ، سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہورہا ہے شہر کی صورتحال گھمبیر ہے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کا تحفظ کرے اگر حکمران شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو انہیں حکمرانی کا کوئی حق نہیں حکومت ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کے لئے مربوط اقدامات اٹھائے ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کوتیرہ دسمبر کو اغواء کیا گیا اور دس روز گزرنے کے بعد بھی انہیں بازیاب نہیں کرایا جاسکا جس کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر سراپا احتجاج ہیں اور عوام کو علاج کی سہولیات میسر نہیں اس سے قبل نصیر آباد سے ہماری پارٹی کے رہنماء حاجی محمد نواز مینگل کو اغواء کیا گیا اور پانچ روز بعد انہیں شہیدکرکے ان کی لاش کھڈ کوچہ کے قریب پھینک دی گئی انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر صوبے میں امن وامان کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے چند سال قبل بھی ایسی ہی صورتحال کے باعث بڑی تعداد میں ڈاکٹروں سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد صوبے کو چھوڑ کر چلے گئے تھے انہوں نے زور دیا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی فوری بازیابی کے لئے حکومت سنجیدہ اقدامات کرے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں صوبے میں امن وامان کی صورتحال ایک بار پھر پٹڑی سے اترتی ہوئی نظر آرہی ہے چھوٹے چھوٹے جرائم کے ساتھ اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بھی ہورہی ہیں یہ کوئی عام وارداتیں نہیں ہوتیں بلکہ یہ ایک منظم جرم ہوتا ہے اور اکثر اواقات ایسے واقعات کے پیچھے بااثر لوگ ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران صوبے میں 31ڈاکٹر اغواء ہوئے گزشتہ روز میں نے احتجاجی ڈاکٹروں سے اظہار یکجہتی کیا جہاں پر بتایاگیا کہ گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران 18ڈاکٹرشہید کئے گئے جبکہ 94ڈاکٹر صوبہ چھوڑ کر چلے گئے ایسے واقعات کے پس پردہ محرکات کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے جس علاقے میں اغواء برائے تاوان کا کوئی واقعہ ہو تو فوری طو رپر ذمہ دار پولیس افسروں کے تبادلے کی بجائے انہیں ان واقعات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری دی جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے بلوچستان کے بجٹ سے ہر سال امن وامان کے قیام کے لئے 37ارب روپے کی انتہائی خطیر رقم فراہم کی جاتی ہے اگر اس کے باوجود بھی امن وامان قائم نہ ہو تو یہ ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر امن وامان کے قیام کو یقینی بنائے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ امن وامان یقینی طو رپر ایک اہم مسئلہ ہے ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغواء کے بعد سے کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث غریب عوام کو علاج معالجے کے حؤالے سے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی اور امن وامان کے قیام کے لئے یقینی طو رپر حکومت کو کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ امن وامان پر اگر اربوں روپے خرچ ہو ں اور پھر بھی ایسے واقعات ہوں تو پھر سوالات جنم لیں گے ایسے واقعات کے تدارک کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں انہوں نے کہا کہ جہاں تک صرف موجودہ حکومت کو امن وامان کا ذمہ دار قرار دینے کی بات ہے تو اگرماضی میں ہم دیکھیں تو سابق دورمیں تو بہت بڑے بڑے سانحہ رونما ہوئے ہم کسی پر نکتہ چینی نہیں کرتے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن اور حکومتی ارکان مشترکہ طور پر امن وامان کے قیام کے لئے کردار ادا کریں عوام کو پرامن ماحول فراہم کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاہم حکومت کو شاہراہوں سمیت پورے صوبے کو پرامن بنانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی ۔صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں عالمی سازش کے تحت حالات خراب کئے گئے لیکن اب سیکورٹی فورسز کی کوششوں سے حالات بہتر ہوئے ہیں ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغواء کے بعد جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جو تحقیقات کررہی ہے اور ہم اغواء کاروں کے قریب پہنچ چکے ہیں امید ہے کہ آئند چند روز میں ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو بازیاب اور تاجر حاجی محمد نواز مینگل کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا جائے گاانہوں نے کہا کہ کوئٹہ سیف سٹی منصوبے پر کام جاری ہے ہم ڈاکٹرو ں کے تحفظ کو بھی یقینی بنارہے ہیں بعدازاں تحریک التواء نمٹادی گئی ۔ اجلاس کے دوران عوامی نوعیت کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے انجینئرز کے سروس سٹرکچر کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت نے بھی اس حوالے سے سفارشات مرتب کی تھیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوا انجینئرز کی پوسٹوں پر غیر متعلقہ افراد کے ہونے سے ترقیاتی کاموں پر فرق پڑرہا ہے صوبے میں 37سو انجینئرز ہیں لیکن ان کی تربیت کے لئے ادارے نہیں ہیں اس حوالے سے حکومت سنجیدہ اقدامات اٹھائے ۔پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ انجینئر ز کو درپیش مسائل حل کئے جائیں۔بعدازاں وزیراعلیٰ میر جام کمال خان نے کہا کہ حکومت سروس سٹرکچر کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے ہمیں سٹرکچرل ریفارمز کی بہت ضرورت ہے سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی اس معاملے پر کام کررہے ہیں آئندہ کابینہ اجلاس میں اس پر بات ہوگی اور کابینہ میں مسئلے کا حل تلاش کرنے کے بعد اسے ایوان میں بھی پیش کیا جائے گا ہمیں صوبے کے نوجوانوں کو نوکریوں کی مارکیٹ فراہم کرنے کے حوالے سے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے ہم سروس رولز ، نوکریوں کی فراہمی پر باقاعدہ طریقہ کار بنارہے ہیں بعدازاں ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔