بلوچستان اسمبلی ، خشک سالی سے متعلق تحریک التواء بحث کیلئے منظور

  • December 18, 2018, 11:15 pm
  • National News
  • 109 Views

کوئٹہ (ویب ڈیسک )بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منگل کے روز قریباً ایک گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم خان رئیسانی نے نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہاؤسز سے یکے بعد دیگرے لوگوں کو فارغ کرنے کا عمل افسوسناک اور تشویشناک ہے اس حکومت میں تو ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ ہوا تھا مگر یہاں حالت یہ ہے کہ لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے ہمیں اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے اور میڈیا ہاؤسز کو بتادینا چاہئے کہ آپ مہربانی کریں ہمارے لوگوں کو بے روزگار نہ کریں پہلے سے ہمارے صوبے میں بے روزگاری ہے ۔ جمعیت العلماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ پہلے بھی ہم اس حوالے سے اس فلو رپر بات کرچکے ہیں پہلے اگر20لوگ تھے تو اب 60ہوگئے ہیں ہمارے صوبے کومیڈیا میں بالکل ہی نظر انداز کیا گیا ہے خشک سالی کا مسئلہ ہو یا پھر سی پیک اور امن وامان سمیت دیگر مسائل ہمیں کوریج نہیں ملتی یہ صورتحال تشویشناک ہے کہ اخبارات مسلسل لوگوں کو فارغ کررہے ہیں اور ہم صوبے کی جانب سے ان اخبارات کو اشتہارات بھی دیتے ہیں انہوں نے کہا کہ سپیکر اس حوالے سے باقاعدہ رولنگ دیں اور وہ اخبارات جنہو ں نے صوبے کے لوگوں کونکالا ہے ان کے اشتہارات بند کردیئے جائیں ، سپیکر چیمبر سے انہیں ایک خط لکھاجائے اور ایوان سے قرار داد پاس کی جائے ۔ جے یوآئی کے اصغرعلی ترین نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک سلسلہ ہے جس میں مزید تیزی آرہی ہے صحافیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ان کے کئی سال ضائع کردیئے گئے اور انہیں بلا وجہ نوکریوں سے فارغ کیا جارہا ہے اس مسئلے پر صوبائی حکومت کووفاقی حکومت سے بات کرنی چاہئے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ خان زیرئے نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ کیا مگر افسوس کہ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے بڑے بڑے اخبارات جنہیں سالانہ کروڑوں روپے کے اشتہارات صوبائی حکومت دیتی ہے وہ لوگوں کو دھڑا دھڑفارغ کررہے ہیں جن لوگوں کو نکالا گیا ہے وہ اب کہاں جائیں گے انہوں نے بھی اس حوالے سے قرار داد لانے اور پاس کرنے کی تجویز دی۔صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ صحافی وہ قبیلہ ہے جو صوبے کے مسائل اجا گر کرتے ہیں صحافی ہمارے صوبے کا سیاسی ، سماجی اور معاشی موقف اجاگرکرتے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جنہیں فارغ کیا گیا ہے وہ کیا کریں گے وہ نہ تو مرغیاں پال سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں ۔ بلوچستا ن نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ نے ملک نصیر شاہوانی اور اختر حسین لانگو کے موقف کی حمایت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیوڈی اے کی پالیسیوں سے نالاں ہیں دوسری جانب کیوڈی اے کی گورننگ باڈی میں اپوزیشن کی کوئی نمائندگی نہیں ہے فوری طور پر موثر نمائندگی دی جائے تاکہ کوئٹہ کے لئے بہتر ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کو ممکن بنایا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کوئٹہ سمیت پورے صوبے کا اہم مسئلہ ہے گزشتہ دنوں جب وزیراعلیٰ نصیرآباد ڈویژن کے دورے پر تھے اسی دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھاگ میں پانی کے مسئلے کا سوموٹو نوٹس لیا مگر صوبائی حکومت نے مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی اور صوبائی حکومت کار اور جیپ ریلی میں مصروف رہی فوری طو رپر عوام کو پینے کا پانی فراہم کیا جائے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں گوادر جانے کا اتفاق ہوا وہاں جگہ جگہ لوگوں کو پانی کے انتظار میں بیٹھے دیکھاضرورت اس بات کی ہے کہ کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور ڈیم کی تعمیر پر توجہ دی جائے۔ ایوان میں اختر حسین لانگو کی جانب سے تنقید پر نور محمد دمڑ کا کہنا تھا کہ وہاں میرے کسی رشتہ دار کا گھر نہیں علاقے کے لوگ میرے گھر آئے تھے کہ ہمارے یہاں کا ٹیوب ویل بند ہے اور منتخب نمائندہ ہمیں ملاقات کے لئے وقت نہیں دے رہا جس پر میں نے وہاں کھلی کچہری لگا کر ایم ڈی واسا کو طلب کرکے ٹیوب ویل کو فعال بنانے کے احکامات جاری کئے مجھے وہاں کے دورے کے موقع پر نظر آنے والے کچرے پر دکھ ہوا اگر میں وہاں کا منتخب نمائندہ ہوتا تو اسی وقت استعفیٰ دے دیتا منتخب نمائندے کو وزیراعلیٰ کی جیپ ریلی کا تو پتہ ہے لیکن اپنے حلقہ انتخاب میں لوگوں کے مسائل سے وہ بے خبر ہیں جس پر ڈپٹی سپیکر نے اختر حسین لانگو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیرون ملک دوروں کی بجائے عوامی مسائل کے حل کے لئے وزیرصاحب کے پاس جائیں اختر حسین لانگو کا صوبائی وزیر کے جواب میں کہنا تھا کہ اگر موصوف اپنے محکمے سے بے خبر ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں میں متعدد مرتبہ واسا کے سب ڈویژنز میں تعینات عملے اور ایم ڈی واسا کو ان مسائل کی نشاندہی کرچکا ہوں عوام کو پانی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اس کے لئے میں کسی وزیر کے بوٹ پالش نہیں کرسکتا لوگو ں نے مجھے میری کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کیا ہے ۔اجلاس میں بی این پی کے ثناء بلوچ کا پوائنٹ آف آرڈر پر خشک سالی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان کی 83.4فیصد آبادی بھوک اور افلاس میں اپنی زندگی بسر کررہی ہے قحط سالی سے متعلق پی ڈی ایم اے کے فراہم کردہ اعدادوشمار درست نہیں ہیں بلوچستان کے 14نہیں بلکہ تمام اضلاع خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں ۔ گزشتہ اجلاس میں ہم نے اس حوالے سے ایک قرار داد بھی لائے تھے جو منظور ہوگئی تھی اس قرار داد میں پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دینے ، زرعی قرضوں کی معافی اور شمسی توانائی کے ٹیوب ویلوں کی تنصیب سمیت دیگر ہنگامی اقدامات کا مطالبہ شامل تھا ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اس ضمن میں ایک کمیٹی قائم کرکے وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے بلوچستا ن اسمبلی میں این ایف سی ایوارڈ اورسیندک پراجیکٹ سے متعلق ہماری تجاویز پر عملدرآمد نہیں ہوا جس طرح سے حکومت چلائی جارہی ہے اس سے صوبے کی پسماندگی کا ازالہ ممکن نہیں اس سے لوگ مزید بھوک و افلاس کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔اجلاس میں پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ 13دسمبر2018کو کوئٹہ شہر سے معروف ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو اغواء کیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں خوف وہراس پایا جاتا ہے لہٰذا اسمبلی کی کارروائی روک کر اس فوری نوعیت کے اہم عوامی مسئلے کو زیر بحث لایا جائے بعدازاں سپیکر نے تحریک التواء منظور کرنے اور21دسمبر کے اجلاس میں اس پر عام بحث کرانے کی رولنگ دی ۔اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ میر محمد عارف محمد حسنی نے اسمبلی قواعد وانضباط کار مجریہ 1974ء کے قاعدہ نمبر174کے تحت آڈیٹر جنرل آف پاکستا ن کی آڈٹ رپورٹ برحسابات حکومت بلوچستان برائے مالی سال 2017-18اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی کارکردگی برائے آڈٹ رپورٹ بر کوئٹہ آب رسانی اور ماحولیاتی ترقی کا منصوبہ یوان کی میز پر رکھا۔اجلاس میں اقلیتی رکن دنیش کمار نے بلوچستان صوبائی اسمبلی مجریہ1974ء کے قاعدہ نمبر180کے تحت بلوچستان صوبائی اسمبلی میں اقلیتی کاکس کا قیام عمل میں لانے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دی ۔اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے قحط اور خشک سالی سے متعلق حکومتی اعدادوشمار اورمتاثرہ اضلاع کو فراہم کی جانے والی امدادی سہولیات سے متعلق تفصیلات کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم اے نے14اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا ہے جن میں بارکھان ، کوئٹہ ڈویژن ، قلات ڈویژن ، زیارت ، رخشان ڈویژن اور مکران ڈویژن کے اکثر اضلاع شامل نہیں ہیں اپوزیشن نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا حکومتی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے صرف پانچ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہیں مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ اس سے ایک کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں جن اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے حکومت کو حقائق کے برعکس معلومات فراہم کی ہیں انہیں معطل کیا جائے ۔ ایوان میں خشک سالی سے متعلق صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے سلیم کھوسہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جس انداز میں قحط سالی کو ایوان میں پیش کررہی ہے ایسا کچھ نہیں ہے ہم نے تمام ڈپٹی کمشنر ز کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں قحط سالی سے سفارشات مرتب کرکے پی ڈی ایم اے کو ارسال کریں تاہم 14اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے اپنے اضلاع میں قحط سالی کی نشاندہی کی ہے اور ان اضلاع کو امدادی سامان راشن اور متاثرہ لوگوں کے لئے رقم ڈپٹی کمشنرز کو فراہم کردی گئی ہے بلوچستان میں قحط سالی پہلی مرتبہ نہیں آئی بلکہ اس سے پہلے بھی مختلف ادوار میں قحط سالی کے اثرات پیدا ہوتے رہے ہیں موجودہ قحط سالی اس نوعیت کی نہیں پھر بھی حکومت اقدامات اٹھارہی ہے اپوزیشن بتائے کہ قحط سالی سے انسانوں اور جانوروں کی اموات کے کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں اور کتنے لوگوں نے ان اضلاع سے نقل مکانی کی ہے ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ متاثرہ اضلاع میں صرف ٹینٹ اور اشن کی فراہمی سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے تاہم ہم اپنا کام بہتر انداز میں کررہے ہیں جو اضلاع متاثر ہیں وہاں ڈیموں کی تعمیر کی تجویز زیر غور ہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ میرے پاس پی ڈی ایم اے کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعدادوشمار موجود ہیں حکام کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ خاران میں 45ہزار افراد خشک سالی اور قحط سالی سے متاثر ہیں جبکہ پی ڈی ایم اے نے 1117لوگوں کے لئے راشن بھیجا ہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اگر بھیجا جانے والا راشن ساڑھے12کلو فی خاندان تقسیم کیا جائے تو بھی یہ صرف تین سو خاندانوں کے لئے ہے باقی لوگ کہاں جائیں گے ۔راشن کی فراہمی قحط سالی پر قابو پانے کا فوری علاج نہیں انہوں نے زور دیا کہ پی ڈی ایم اے سے گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران راشن کی خریداری اور فراہمی کی تفصیلات نکالی جائے تو بھی صورتحال سامنے آجائے گی پھر امدادی سامان کی خریداری اور ترسیل پر جو خرچہ آتا ہے اگر یہی رقم متاثرین کو دی جائے تو وہ تین گنازیادہ راشن خرید سکتے ہیں صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن کو حکومت اعتماد میں نہیں لیتی جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں خشک سالی اور قحط سالی پورے صوبے کا بہت بڑا مسئلہ ہے اس پر پوری تیاری کے ساتھ وفاق سے بات کرکے ہرضلع کے لئے پچاس کروڑ سے ایک ارب روپے تک کے پیکج لئے جائیں خشک سالی کے باعث دیہی علاقوں سے نقل مکانی بھی ہورہی ہے بلوچستان خطے کا غریب ترین صوبہ ہے یہاں ماں اور بچے کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ غذائی قلت ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر متاثرین کے لئے بہترین پیکج حاصل کریں ۔ صوبائی وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ ہم اپوزیشن کوا عتماد میں لے کر وفاق کے پاس جا کر صحیح اعداوشمار کے ساتھ صوبے کی بہتر نمائندگی کرتے ہوئے اچھا پیکج لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں پر امدادی سامان بھیجاجاتا ہے اور اب تک پی ڈی ایم اے کے لئے جو امدادی سامان خریدا گیا ہے وہ سابق دور حکومت میں خریدا گیا ہم نے اب تک کوئی خریداری نہیں کی ۔بلوچستان کے اضلاع میں نیوٹریشن پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے ہم اپوزیشن کے ساتھ مل کر مسئلے کے مستقل حل کو یقینی بنائیں گے ہم سمجھتے ہیں کہ امدادی سامان کی فراہمی مسئلے کا مستقل حل نہیں یہ فوری ریلیف ہے صورتحال کوجلدبہتر بنائیں گے۔ صوبائی مشیر ملک نعیم بازئی نے کہا کہ حکومت کو آئے ہوئے ابھی چند مہینے ہی ہوئے ہیں ہم سے حساب لینے والے بتائیں کہ انہوں نے چالیس سال اقتدار میں رہتے ہوئے کیا کیا ۔جمعیت علماء اسلام کے یونس عزیز زہری نے کہا کہ ہمارے اضلاع میں غیر منتخب افراد کے ذریعے مداخلت کی جارہی ہے ماضی کی طرح ایک بار پھر تھانے اور چیک پوسٹ بھتہ خوری کرنے والوں کی سرپرستی کی جارہی ہے انہی لوگوں کے کہنے پر اعلیٰ افسران کے تبادلے ہورہے ہیں یہ سلسلہ ختم نہیں کیا گیا تو ہم سخت احتجاج کریں گے ۔صوبائی وزیر داخلہ سلیم کھوسہ نے کہا کہ یہ بات ان کے علم میں اب لائی جارہی معزز رکن تحریری طور پر آگاہ کریں سخت کارروائی کریں گے۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپوزیشن لیڈر منتخب کیا وزیراعلیٰ اور حکومتی اراکین کا بھی شکریہ اداکرتا ہوں کہ جنہوں نے میڈیا کے ذریعے مبارکباد دی میری گزارش ہوگی کہ اپوزیشن کاکام حکومت کے معاملات کو درست اور صوبے کے مسائل کی نشاندہی کرنا ہے حکومتی ارکان کی جانب سے اپوزیشن کی بلا جواز مخالفت اور بحث برائے بحث سے گریز کیا جائے آج یہاں پر اپوزیشن کی جانب سے جتنے مسائل کی نشاندہی کی گئی وہ تمام درست اور اہمیت کے حامل ہیں اگر اختر لانگو اور احمد نواز لانگو نے کیوڈی اے کی گورننگ باڈی کی بات کی ثناء بلوچ نے قحط اور خشک سالی کامسئلہ اٹھایا تو یہ صوبے کے اہم مسائل ہیں وقفہ سوالات میں جوابات نہ ملنے یا تاخیر سے ملنے کے مسئلے پر بھی اپوزیشن کا موقف درست تھا حمل کلمتی نے گوادر میں پینے کے پانی اور ماہی گیروں کے احتجاج پر بات کی تو اس پر بھی اعتراض کی کوئی بات نہیں اپوزیشن کی جانب سے کوئٹہ میں پینے کے پانی کا مسئلہ بھی اہم ہے مگر حکومتی ارکان اور وزراء نے مثبت انداز میں جواب دینے کی بجائے اپوزیشن کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی جو درست اقدام نہیں امید ہے کہ مستقبل میں اس سے گریز کیا جائے گا۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن صحافیوں کو نوکریوں سے برخاست کیا گیا ہے جو غیر قانونی و غیر آئینی عمل ہے میڈیا کے ملازمین کو اس بے قدری سے نکالنا جمہوریت اور تمام روایات کے منافی قدم ہے ۔یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ صوبے کے صحافیوں کو ملازمتوں کو فی الفور بحال اور ان کی ملازمتوں کو مستقل بنیادوں پر تحفظ دینے کو یقینی بنائے ۔ صوبے میں صحافیوں کو ملازمتی تحفظ کی فراہمی کے معاہدے تک صوبائی حکومت ان کے اشتہارات بڑے میڈیا گروپس کے اشتہارات پر مکمل پابندی لگائے تاکہ صوبے کے صحافیوں میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کے خاتمے کو ممکن بنایا جاسکے ۔بعدازاں سپیکر نے ایوان کی رائے سے قرار داد منظور ہونے کی رولنگ دی ۔اس موقع پر ڈپٹی سپیکر نے ایوان میں صوبے میں باران رحمت کے لئے دعا کرائی ۔