گلی کوچوں سے ملنے والی لاشیں ریاست کیلئے چیلنج ہیں، لشکری رئیسانی

  • November 11, 2018, 11:26 pm
  • National News
  • 69 Views

کوئٹہ ( این این آئی) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق سچائی جاننے کیلئے عالمی انصاف کے اداروں کی سرپرستی میں ٹروتھ کمیشن قائم کیا جائے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین نے تین ہزار کلو میٹرتک طویل لانگ مارچ کرکے انصاف کیلئے سپریم کورٹ کے درواز ے پر دستک دی واہگہ بارڈر پر نہیں تاریخ میں لکھا جائیگا کہ بلوچستان کے لوگ اپنے گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے ریاستی اداروں سے اپنا آئینی مطالبہ کررہے تھے تو انصاف مہیا کرنے والا ادارہ ڈیم تعمیر کررہا تھا۔ گزشتہ روز لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ لشکری رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ غیور باپردہ بلوچ سماج کی خواتین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے دھرنا دیئے بیٹھی ہیں جن کی شنوائی نہ ہونا یقیناًاس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جن لوگوں کو ہمارے بھائیوں اور بچوں کی بازیابی کیلئے اٹھنے والی آواز پسند نہیں وہ خاص طبقہ ہماری آواز دبانے کیلئے سازش تیار کررہا ہے ایسے میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں ،سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت ہر غیرت مند بلوچ ، پشتون سمیت بلوچستان میں آباد تمام اقوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہوکر ریاستی اداروں کی توجہ ان محکوم و مظلوم لوگوں کی جانب مبذوال کرائیں تاکہ ایک پرامن انصاف پر مبنی ریاست قائم ہو جس میں ہماری بچیاں باعزت اور پردہ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار سکیں۔گلی کوچوں اورویرانوں سے ملنے والی لاشیں مہذب ممالک سمیت ملک میں انصاف مہیا کرنے والے اداروں اہل دانش سمیت ریاست کیلئے ایک چیلنج اور لمحہ فکریہ ہے نوابزادہ لشکری رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ کئی سالوں سے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں سماجی کارکنوں سمیت لاپتہ افراد کے عزیزواقارب اپنے لاپتہ گھروں کے کفیل سروں کے سائے کی تلاش کیلئے ملک کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ریاست سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ریاست اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے مگرافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت میں ایک دہائی سے قائم کیمپ میں ہر روز ایک لاپتہ شخص کی تصویر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ لاپتہ افراد سمیت بلوچستان کے ہر فرد کا مطالبہ ہے کہ ہمارے پیاروں کو منظرعام پر لاکر ملکی عدالتوں کے ذریعے ان کا شفاف ٹرائل کیا جائے ا گر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو ان کو پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق سزا دی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ باپردہ بلوچ سماج سے تعلق رکھنے والی ہماری بہنوں اور بچیوں نے پر امن احتجاجی لانگ مارچ کے ذریعے تین ہزار کلو میٹر طویل سفر پیدل طے کرکے ملک کے آئینی ادارے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی جس کا کام سماج کے لوگوں کو انصاف مہیاکرناہے انہوں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے واہگہ بارڈر پر دستک نہیں دی۔ لانگ مارچ کو کئی سال گزرجانے کے باجود یہ لوگ کوئٹہ میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں جن کی کوئی سننے نہیں آرہا۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ تاریخ میں لکھاجائیگا کہ ملک میں انصاف کی طلب گار بچیاں کیمپ میں اپنے لوگوں کی بازیابی کیلئے بھوک اور پیاس کے عالم میں انصاف مہیا کرنے والے ادارے کے آگے دہائیاں دے رہی تھیں تو انصاف فراہم کرنے والے ریاستی ادارے کنسٹریشن کا کام اور ڈیم تعمیر کررہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لاپتہ افراد سے متعلق سچائی جاننے کیلئے عالمی انصاف کے اداروں کی سرپرستی میں ٹروتھ کمیشن قائم کیا جائے اور اگر ریاستی ادارے لوگوں کے اغواء4 میں ملوث نہیں تو حقائق سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے ہمیں بتائیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں صوبے کے طول و عرض میں پھینکی گئی لاشیں کن کی ہیں ہم اپنے پیاروں کی گمشدگی کا مطالبہ چور سے نہیں چوکیدار سے کرتے ہیں جنہیں ریاست نے اپنے شہریوں کی چوکیداری کے لیے معمور کیا ہے ہمارا مطالبہ ملک کے ایوان عدل میں بیٹھے سربراہ سے ہے کہ وہ کوئٹہ کے سول ہسپتال اور جیل کے دورے کی طرح اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج پر بیٹھے ملک کی شہریت اور شناختی کارڈ رکھنے والی خواتین کے کیمپ کا دورہ کرکے انصاف کے تقاضے پورے کرینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری چیف جسٹس آف بلوچستان ہائیکورٹ سے درخواست ہے کہ وہ ہماری پردہ دار خواتین کی چادر کا پاس رکھتے ہوئے انہیں انصاف مہیا کریں۔