بلوچستان کی سرزمین کے حوالے سے جو بھی بات ہوگی وہ حکومت بلوچستان کرے گی ،جام کمال

  • November 8, 2018, 12:38 am
  • National News
  • 77 Views

کوئٹہ (ویب ڈیسک ) وزیراعلی بلوچستان میر جام کمال نے کہاہے کہ بلوچستان کی سرزمین کے حوالے سے جو بھی بات ہوگی وہ حکومت بلوچستان کرے گی ،بلوچستان میں سرمایہ کاری سمیت ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے حکومت بلوچستان سے بات کی جائے ،وفاق سہولت کار ضرور ہے لیکن فیصلہ حکومت بلوچستان کرے گی ،صوبے کی زمین کو محفوظ بناکر سرمایہ کاروں کو لاکر بیروزگاری کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ،سی پیک کے مغربی روٹ کا کوئی تصور نہیں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے منصوبے کو مغربی روٹ کا نام دے کر افتتاح کیا ہمیں مغربی روٹ کی پٹڑی پر ڈال کر تمام ترقی مشرقی علاقوں میں کی گئی ،سی پیک صرف ایک روٹ ہے جسے گزشتہ حکومت نے خود متنازعہ بنایا اس میں ایک روپیہ بھی گرانٹ نہیں ابتدائی مرحلے میں 55ارب ڈالر میں سے 28ارب ڈالر خرچ کئے جاچکے ہیں حکومت بلوچستان میں سرمایہ کاری لانے کیلئے دوماہ بعد چین ،خلیجی ممالک ،یورپ سمیت دیگر ممالک میں روڈ شوز کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کررہی ہے،یہ بات انہوں نے بدھ کے روز وزیراعلی ہاؤس میں سینئر صحافیوں ،ایڈیٹرز سے ملاقات کے دوران دورہ چین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ،اس موقع پر صوبائی وزراء میر ظہور احمد بلیدی ،میر اسداللہ بلوچ ،میر سلیم احمد کھوسہ ،وزیراعلی کے مشیر حاجی محمد خان لہڑی،رکن صوبائی اسمبلی بشری رند سمیت دیگر بھی موجود تھے ،وزیراعلی میر جام کمال نے کہاکہ وزیراعظم کے ہمراہ چین کا دورہ کامیاب رہا ،انہوں نے کہاکہ دوماہ بعد ہم چین میں روڈ شو کریں گے شو کا مقصد بلوچستان کے وسائل او رمصنوعات کیلئے چینی مارکیٹ میں جگہ حاصل کرنا ہے انہوں نے کہاکہ شنگھائی امپورٹ ایکسپوجیسے اقدامات سے حوصلہ ملا ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کے بہت سے وسائل اور مصنوعات جن میں زراعت ،ماہی گیری ،لائیو اسٹاک،سیاحت جیسے شعبہ جات شامل ہیں کی چینی مارکیٹ میں اہمیت ہے ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ اگر ہم سوچیں کہ سرمایہ کار خود آکر یہاں اپنا پیسہ لگائیں گے تو یہ 21ویں صدی میں خام خیالی ہے ہمیں بلوچستان میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا ہے اسکے حوالے سے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کام کریں گے ،اب بلوچستان کو اپنی نمائندگی خود کرنی ہے یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا دیکھنے میں لگتا ہے ہمارے پاس قابلیت موجود ہیں صرف اسے صحیح سمت میں استعمال کرنا ہے ،سرمایہ کار چند تصاویر یا بریفنگ لینے سے نہیں آتے ہمیں انہیں بلوچستان کی حقیقی تصویر دیکھانے کی ضرورت ہے اور سرمایہ کاروں کو جامعہ حکمت عملی سے قائل کرنا ہوگا ،انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی جغرافیاں ،معدنی وسائل ،ساحل ہماری طاقت ہیں ہمیں اسے بروئے کار لانا ہوگا ،اگر اقتصادی صورتحال ایسی ہی رہی تو پھر ہم ترقی کی بجائے پینشن تنخواہیں اور پی ایس ڈی پی ہی پورا کرنے میں لگیں گے ترقی ایسے نہیں ہوسکتی ،ایک سوال کے جواب میں وزیراعلی بلوچستان نے کہاکہ چین کیساتھ ہونیوالے کسی بھی منصوبے میں بلوچستان کی زمین کی ملکیت کسی کو نہیں دیں گے جس نے زمین لینی ہے وہ لیز ،کرایئے یاحصہ داری پر لے ہماری زمین ہی ہمارا اصل آمدن کا ذریعہ ہے اگر 10سال تک بلوچستان کی زمین کو سنبھال لیا تو یہ ہماری حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا ،جب تک صوبے کا ریو نیو نہیں بڑھے گا اس وقت تک صوبے کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ،انہوں نے کہاکہ سی پیک کسی ایک معاہدے کا نام نہیں ہے یہ پرانے سلک روٹ جس کا نیا نام بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹیو ہے کا ایک حصہ ہے سی پیک پر ایک روپیہ بھی گرانٹ نہیں ہے اس پر سب کچھ قرضے پر ہے بلوچستان کی پرانی حکومتیں اس انتظار میں رہی کہ انہیں 55ارب ڈالر میں سے حصہ ملے گا جبکہ وفاقی حکومت نے سب کچھ ابتدائی مرحلے میں میٹرواورنچ لائن اور لاہور ائیر پورٹ کی توسیع ساہیوال میں پاور پلانٹ سمیت دیگر منصوبوں کیلئے مختص کردیا جبکہ بلوچستان کو صرف 2چھوٹے منصوبے دیئے گئے جن میں ایک گوادر پورٹ کے چھوٹے کی توسیع او ردوسرا حبکو پاور پلانٹ کا منصوبہ ہے ہمیں مغربی روٹ کی پٹڑی پر ڈال دیا گیا اور خود مشرقی علاقوں میں کام کروائے گئے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے 10سال پرانے منصوبے کو مغربی روٹ کانام دے کر افتتاح کیا ہم سی پیک کے تحت بلوچستان کو ابتدائی مرحلے میں منصوبے دلوانے کا موقع گنوا چکے ہیں اب مستقبل کیلئے کام کرنا ہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی سرزمین کے حوالے سے جو بھی بات ہوگی وہ حکومت بلوچستان کرے گی جس نے بات کرنی ہے کوئٹہ ،اسلام آباد ،گوادر حاضر ہیں ہم سے بات کریں وفاق ہمار اسہولت کار ،شریک یا حصہ دار بن سکتا ہے لیکن فیصلہ حکومت بلوچستان ہی کرے گی ،انہوں نے کہاکہ چین اور پاکستان کے درمیان مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کا فیصلہ مثبت اقدام ہے ،بلوچستان اس وقت بھی مالی بحران کا شکار ہے ہمیں پی ایس ڈی پی کی اسکیمات کو مکمل کرنے کیلئے 4سو ارب روپے کی ضرورت ہے لیکن ہم حکمت عملی مرتب کررہے ہیں ،اس وقت بھی بغیر قرضہ لئے اپنے اخراجات برداشت کررہے ہیں ،صوبے میں 80ارب روپے کی ایسی اسکیمات ہیں جوگزشتہ 8سے 9 سال سے تکمیل کے قریب لیکن بند پڑی ہیں ہم نے اس حوالے سے ترجیحات بنا لی ہے جلد ہی فنڈ ریلیز کرکے ان اسکیمات کو مکمل کریں گے ،انہوں نے کہاکہ گوادر میں اراضی کی بند ر بانڈ کرکے بلوچستان کے مستقبل کو داؤ پر لگایا گیا صوبے پر اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوسکتا ،صوبے میں آئل ریفاینری لگانے کیلئے 80ہزار ایکڑ زمین لی جارہی ہے جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی ریفاینری بھی 600ایکڑ پر مشتمل ہیں یہ زمین بھی ضرورت سے زیادہ ہیں اگر ہم گوادر میں 2سے ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین بچا لیں تو یہ ہماری حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی ،میر جام کمال نے کہاکہ پسنی میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کردیا ہے اگلے 8ماہ میں ضلع گوادر کو 4سے 5ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کریں گے جس سے پورے ضلع کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے ،انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترقی کیلئے درمیانے اور طویل مدتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے ایسے منصوبے جو ایک سے 4سال کی مدت میں مکمل ہوں ان سے اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کرنا ممکن ہے ،ریکوڈیک کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ ریکوڈیک منصوبے کی متاثرہ کمپنی کی جانب سے 12سوبلین ڈالر کا ہرجانے کا دعوی کیا جارہاہے جبکہ ہماری کوشش ہے کہ کم سے کم ہرجانہ ڈیڑھ سو بلین دیا جائے ،انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں سیندک اور ریکوڈیک جیسے دیگر وسائل بھی موجود ہیں ہم ان پر بھی کام کرنے کیلئے حکمت عملی مرتب کررہے ہیں وزیراعلی نے کہاکہ بلوچستان میں جو بھی ملک سرمایہ کاری کرنا چاہتاہے ہم اسے خوش آمدید کہیں گے اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کریں گے ،چین سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے ہم بھی ترقی کرسکتے ہیں اور انکی نظام کی مثبت چیزیں اپنے ملک میں لاسکتے ہیں ۔