وزیراعظم سے صوبے کے لئے ون ٹائم گرانٹ لینے کی کوشش کریں گے ،صوبائی وزراء

  • October 5, 2018, 10:59 pm
  • National News
  • 225 Views

کوئٹہ (ویب ڈیسک ایجنسیاں )بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔اجلاس میں بلوچستان کے مالی بحران کے تناظر میں این ایف سی ایوارڈ میں تاخیر اور وسائل کی تقسیم پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان کے مالی معاملات ٹھیک نہیں ہیں موجودہ بجٹ سابق حکومت بنا کر گئی جو اس کا استحقاق نہیں تھا سابق حکومت پانچ بجٹ پیش کرچکی تھی جس کے بعد بجٹ پیش کرنا موجودہ حکومت کا استحقاق تھا مگر بجٹ ایک ایسے موقع پر آیا کہ جسے سابق حکومت نے پیش کیا بجٹ میں 75ارب روپے کا خسارہ ہے جبکہ ہمارا پی ایس ڈی پی 88ارب روپے کا بنایا گیا تھا لیکن اس وقت پی ایس ڈی پی میں ہمارے پاس صرف88کروڑ روپے رہ گئے ہیں ایسے میں ہم وفاق کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح سے ہمیں اس مالی بحران سے نکالے گی پانچ سال بعد این ایف سی آنا چاہئے مگر تین سال سے این ایف سی نہیں آیا ہماری کوشش ہوگی کہ آئندہ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا زیادہ حصہ لینے کے لئے بھرپور تیاری کے ساتھ جائیں آج وزیراعظم کوئٹہ آرہے ہیں ہمارے مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں وزیراعظم سے صوبے کے لئے ون ٹائم گرانٹ لینے کی کوشش کریں گے تاکہ بہتر انداز میں صوبے کو آگے بڑھا سکیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان جو ملک کے 44فیصد رقبے پر مشتمل ہے اور یہ جان کر انتہائی افسوس ہوا کہ صوبے کے پاس ترقیاتی پروگرام کے لئے صرف 88کروڑ روپے ہیں جبکہ صرف اسلام آباد کی کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس62ارب روپے کا بجٹ ہے انہوں نے کہا کہ آج این ایف سی اور مالی بحران پر ایک اہم بحث ہے مگر اب تک حکومتی بینچ خالی نظر آرہے ہیں ہم حکومت کی مدد کرنا چاہتے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس مشکل صورتحال میں حکومت خود ہمارے پاس چل کر آتی ہم سیاست سے بالا تر ہو کر صوبے کی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں بدقسمتی سے سابق چند ادوارمیں اس نہایت ہی اہم ایوان کی اہمیت کو انتہائی کم کردیا گیا آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس ترقیاتی پروگرام کے لئے صرف88کروڑ روپے ہیں اس رقم میں کیا کام ہوسکتا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں وفاق سے امداد یا خیرات نہیں بلکہ اپنے حقوق لینے ہوں گے اس موقع پر انہوں نے ملک میں این ایف سی کی تاریخی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک بننے کے بعد پہلے فنانشل کمیشن کے تحت مغربی پاکستان کو 54اور مشرقی پاکستان کو46فیصد وسائل ملے مغربی پاکستان کے 54میں سے27فیصد وسائل پنجاب کو ملے اور بلوچستان کا حصہ صرف صفر اعشاریہ چھ فیصد تھا بلوچستان سے ناانصافیوں کا سلسلہ پہلے دن سے شروع ہوابلوچستان جو آج پسماندگی اور غربت کا شکار ہے اس کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے 1973ء کے آئین کے بعد یہ ضروری قرار دیاگیا کہ ہر پانچ سال کے بعد این ایف سی ایوارڈ آئے گا جس میں وسائل کے منصفانہ بنیاد پر تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا یہاں کہیں آبادی کا ذکر نہیں تھا انہوں نے آئین کے مختلف آرٹیکلز کا تفصیل سے ذکر بھی کیا اور کہا کہ اب تک ملک میں آنے والے آخری این ایف سی ایوارڈ جو تین سال قبل ختم ہوچکا ہے اور اب نیا این ایف سی ایوارڈ آنا ہے دوسری جانب ایک مخصوص طبقہ اٹھارہویں ترمیم پر نظر ثانی کی کوشش کررہا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو بھی اس میں صرف مالی معاملات پر نظر ثانی ہوگی اور اطلاعات یہ ہیں کہ بلوچستان کے انتہائی محدود وسائل میں مزید کٹوتی کی جائے گی جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بھی صوبوں کے دو فیصد کٹوتی کی اطلاعات ہیں بلوچستان جو وفاقی حکومت کی اپنی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہے جبکہ بی آئی ایس پی کے 88ارب روپے میں بلوچستان کو تین فیصد دیا گیا انہوں نے کہا کہ اگر ہم صوبے کی غربت ، پسماندگی ، معدنی وسائل ،مالی مشکلات اور دیگر حوالوں سے مکمل تیار ی کرکے جائیں تو وفاقی حکومت سے 88ہزار کروڑ روپے بھی لا ئے جاسکتے ہیں انہوں نے تجویز دی کہ این ایف سی میں جانے سے قبل حکومت پوری تیاری کرے نیاطریق کاراپنا یا جائے جس میں 20رقبے ، 20فیصد قدرتی وسائل ،15فیصد غربت و پسماندگی کے لئے رکھے جائیں اور آبادی جو اس وقت این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم میں پہلے نمبر پر ہے اسے آخری نمبر پر رکھاجائے اور ایس ڈی جیز کو بھی بجٹ میں شامل کرایا جائے ۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کل بھی صوبائی اسمبلی کے ایوان میں انتہائی اہم ایشو پر بات ہوئی آج بھی انتہائی اہم مسئلے پر بحث ہورہی ہے تاریخ انہی ایشوز پر لکھی جائے گی یہاں اکثر اراکین سابق حکومتوں سے گلے شکوے کرتے نظر آئے ہم اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں اور حالت یہ ہے کہ گھر کا مالک ہونے کے باوجود ہمیں ہمارے گھر کے ساحل اور وسائل کے معاہدوں پر اعتماد میں نہیں لیا جاتا حتیٰ کہ اس ایوان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا آج اگر خطے میں ہمارے ملک کی اہمیت ہے تو یہ اہمیت بلوچستان کی بدولت ہے بلوچستان کی اہمیت گوادر پورٹ ، سیندک ، کوئلے کے ذخائر تیل و گیس سمیت دیگر معدنیات اور وسائل کی بدولت ہے یہ وسائل ہمارے کام تبھی آسکتے ہیں جب ہم ان کے مالک ہوں گے موجودہ حکومت پہلے دن سے انتہائی احتیاط کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے اقدامات کررہی ہے ہمیں بلوچستان کے وسائل سے متعلق تمام معاہدوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی تاکہ کل اس ایوان میں آنے والے لوگ ہماری اس موجودہ حکومت کا تذکرہ کرتے ہوئے گلہ شکوہ نہ کرے ۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں تاخیر افسوسناک ہے مگر ہمیں یہ کریڈٹ 2010ء کی اس حکومت کو دینا چاہئے جس نے دن رات کام کرکے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کرایا آج اگر ہمار ے پاس وسائل میں تھوڑا بہت اضافہ ہوا ہے تو یہ2010ء کے این ایف سی کی بدولت ممکن ہوا ہے اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ 2010ء سے پہلے کے ترقیاتی فنڈ ز دیکھے اور پھر2010ء کے بعد سے ترقیاتی فنڈز کا جائزہ لے یہ کریڈٹ سابقہ حکومت کو جاتا ہے جس نے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء کو ممکن بنایا بطور اتحادی ہم بھی اس حکومت کاحصہ تھے اور ہونا یہ چاہئے کہ اس حکومت کو اس کا کریڈٹ دیا جائے اور اس کے بعد 2015ء سے اب تک اگر نیا ایوارڈ جاری نہیں ہوا تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو خود کو اس دھرتی کا وارث کہتے ہیں انہوں نے میاں نواز شریف کا اتحادی ہوتے ہوئے بھی این ایف سی ایوارڈ کا اجراء نہیں کرایا جے یوآئی بھی سابق وفاقی حکومت کی اتحادی تھی انہوں نے بھی اس حوالے سے اپنا کردار اد انہیں کیا اب بھی اگر ہم این ایف سی ایوارڈ کا اجراء چاہتے ہیں تویہ حکومت بلوچستان کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ اجراء وفاق سے ہونا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی کسی مخصوص جماعت یا صرف صوبائی حکومت کا نہیں بلکہ یہ پورے صوبے کا مشترکہ مسئلہ ہے اوریہ مشترکہ مسئلہ ہم نے مشترکہ جدوجہد سے حل کرنا ہوگا اس کے لئے وفاق میں جا کر موثر طریقے سے با ت کرنی ہوگی یہاں صوبے میں بلوچستان نیشنل پارٹی اپوزیشن میں ہے مگر وفاق میں وہ حکومت کی اتحادی ہے اور اس جنگ میں اس نے اپنی اتحادی حکومت کے سامنے بلوچستان کا مقدمہ لڑنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت کانعرہ یہی ہے کہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ ناانصافی کا ازالہ کرنا ہے مگر اس کے باوجود ریوائزڈ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کی ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے ڈراپ کئے گئے ہیں پندرہ سے بیس منصوبے ایسے ہیں جن پر کٹ لگادیا گیا ہے ان تمام امور پر قائد ایوا ن جا م کمال وفاق میں جا کر بات کریں گے مگر ہمارے اپوزیشن کے ساتھی جو وفاقی حکومت کے اتحادی ہیں انہیں اس کام میں قائدا یوان کاساتھ دینا ہوگا وزیراعظم کوئٹہ آرہے ہیں ان کے سامنے تمام صورتحال رکھنی ہوگی اس کے لئے وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے سابق دور میں تو کچھ نہیں ہوا سابق وزیراعظم نے ژوب آکر سیاسی قیادت کو پیچھے کھڑا کرکے پوری قوم کو بے وقوف بنایا سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کوئٹہ آتے اعدادوشمار میں لوگوں کو الجھا کر چلے جاتے عملی طور پر بلوچستان کی ترقی کے لئے کچھ نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ پرائم منسٹر کے سامنے صوبائی حکومت تمام معاملات رکھے گی مگر اس کے لئے ہم سب کومشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی خاص طو رپر سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کو یقینی بنانانا چاہئے اب تو سننے میں آرہا ہے کہ سی پیک سے متعلق پچھلی حکومت نے جو معاہدے کئے ان کے تحت اسی طرح کام جاری رہے گا حالانکہ موجودہ وفاقی حکومت کا سابق دور میں یہ سٹینڈ رہا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپشتونخوا کو سی پیک سے زیادہ سے زیادہ حصہ ملنا چاہئے ہمیں وفاق میں اپنی بات تیاری کے ساتھ رکھنی ہوگی امید ہے کہ اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کا ساتھ دیں گے۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل اہم منصوبوں کو ڈراپ کیا گیا جو باعث افسوس ہے این ایف سی ایوارڈ میں جو فارمولہ بنایاگیا ہے اس کے تحت آبادی کا82فیصد ، غربت و پسماندگی کا دس فیصد اورریونیو کا پانچ فیصد ہے ۔انہوں نے کہا کہ جس طرح ملک میں الیکشن کرائے گئے اور جن لوگوں کو لایا گیا اس کا مقصد نویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کاحصہ کم کرنا ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا حصہ 9اعشاریہ زیرو نائن کم کیا جارہا ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے این ایف سی ایوارڈ میں فارمولے کو آبادی کی بجائے رقبے کے حساب سے طے کیا جائے صوبے کی بنجر زمینوں کو آباد کرنے کے لئے واٹر پالیسی، کوئلہ کانوں سے نکلنے والے ذخائر کے لئے جدید نظام متعارف کرانے ، دہشت گردی سے متاثرہ لوگوں کے لئے خصوصی پیکج کو این ایف سی ایوارڈ کا حصہ بنایا جائے انہوں نے کہا کہ فاٹا کو خیبرپشتونخوا میں شامل کرکے گیس ، پٹرو ل ، کوئلہ اور قبائلی علاقوں سے مائنز اینڈ منرلز سمیت دیگر وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے کام کا آغا زکیاگیا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مالی بحران اور پسماندگی کے شکار صوبے کو این ایف سی میں حصہ نہ ملنا اور اس کے منصوبوں کا ڈراپ ہونا بلوچستان کے لئے خوش آئند نہیں این ایف سی ایوارڈ بلوچستان کے لئے ایک خوشخبری تھی جس سے لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کی تھیں اورگمان کیا جارہا تھا کہ آئندہ بلوچستان میں خوشحالی آئے گی مگر افسوس 2010ء کے بعد آنے والے وسائل سے عوام کو کچھ نہیں ملا بلکہ اس دور میں آنے والی حکومتیں این ایف سی سے مستفید ہوئیں اور بلوچستان کے لئے آنے والی رقم ساؤتھ افریقہ ، مالٹا ، ملائیشیاء اور آئر لینڈ میں لگی جبکہ بلوچستان کے عوام ، ہمارے بزرگ ، سیاستدان ، نوجوان جنہوں نے جیلیں کاٹی تھیں ان کی جدوجہد سے ملنے والی این ایف سی سے بلوچستان کے عوام محروم رہے جنہوں نے بلوچستان کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ماضی کے حکمرانوں کی جانب سے عوامی دولت کے غلط استعمال پر ان کی روحیں قبروں میں تڑپی ہوں گی ۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت اور بلوچستان میں حکومتی اتحاد ی ہے بلوچستان کے حقوق این ایف سی اور دیگر اہم مسائل پر جہاں بات ہوگی ہم ہر فورم پر بلوچستا ن کے لئے اپنی آوا زبلند کریں گے اور صوبے کے عوام کی حقیقی نمائندگی کریں گے انہوں نے کہا کہ ہم نے اس جماعت کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو پہلی مرتبہ اقتدار میں جارہی تھی اور اسے عوام کی تائید حاصل تھی اس امید کے ساتھ ہم تحریک انصاف میں شامل ہوئے کہ اقتدار میں آکر چھوٹے صوبوں کے مسائل ، عوام کی تکالیف کا ازالہ کیا جائے گا اور ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف پورے ملک میں آباد تمام طبقہ فکر کو ان کا حق دلائے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں حکومت نے32ارب ڈالر کا قرضہ لیا ہے جسے اگر روپے میں تبدیل کیا جائے تو یہ تین ہزار9سو68ارب روپے بنتے ہیںیہ کہاں استعمال ہوئے آج ہم اگر 1947ء سے حساب نہیں مانگ سکتے تو کم از کم حکومت2010ء سے اس بات کا تعین کرائے کہ عوام کے لئے آنے والی رقم کہاں خرچ ہوئی اس کا فیصلہ اور احتساب ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ ایوان میں چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی قرار دادیں منظور ہوتی رہی ہیں بلکہ میونسپل کارپوریشن سے بھی زیادہ یہاں قرار دادیں منظؤر ہوئیں حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ ایسی اہم نوعیت کی قرار دادیں پاس کرائی جائیں جن پر عملدرآمد کے لئے صوبائی حکومت مرکز میں اپنا پورا زور لگائے تاکہ بلوچستان کو اس کے حقوق دلائے جاسکیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے حلقے کا بھی علم ہے جہاں پانچ گھروں پر مشتمل آبادی کے لئے ایک چار دیواری کے اندر تین کمیونٹی سینٹرز قائم کئے گئے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اب بلوچستان کے عوام کا استحصال نہ ہو ماضی کے حکمرانوں کی عیاشیوں کے لئے لئے گئے قرضوں کی سود سے آج ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ آج وزیراعظم کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر این ایف سی ایوارڈ سے متعلق اتحادی جماعتوں بی این پی اور بی اے پی کے تحفظات سے وزیراعظم کوآگاہ کریں گے ۔جمعیت العلماء اسلام کے ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ وفاق اور صوبے میں برسراقتدار جماعتیں دونوں جگہ اتحادی ہیں اور یہ ایک فطری عمل ہے کہ شاید صوبائی حکومت وفاقی حکومت کا کچھ خیال رکھے گی مگر صوبائی حکومت کو اپنے مالی مسائل دلیل کے ساتھ وفاق کے سامنے رکھنے ہوں گے 1992ء میں بلوچستان اسمبلی میں حکومت او راپوزیشن ارکان نے متفقہ طو رپر فیصلہ کیا کہ تمام ارکان اسمبلی اسلام آباد جا کر وفاق سے اپنے حقوق کے لئے بات کریں گے مگر کچھ عرصے بعد یہ اتحاد برقرار نہ رہ سکا انہی دنوں وہاں پر اس وقت کی خیبرپشتونخوا حکومت اور اپوزیشن ارکان بھی خیبر ہاؤس اسلام آباد میں موجود تھے جنہیں اس وقت کے وزیراعظم نے مذاکرات کے لئے بلایا مگر انہوں نے واضح کیا کہ مطالبات پر عملدرآمد کیا جائے ورنہ ان کا احتجاج جاری رہے گا ہمیں بھی کچھ اسی طرح کے اتحادکا مظاہرہ کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ این ایف سی میں وسائل رقبے کے حساب سے ملنے چاہئیں کیونکہ ترقیاتی منصوبوں کو زمین پر بنانا ہوتا ہے انہوں نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر ہم پوری تیاری کریں تو ہم این ایف سی میں پچاس فیصد وسائل کا مطالبہ کرسکتے ہیں ہم نے پانی کے مسئلے کو حل کرنا ہے انہوں نے کہا کہ اگر 1952ء سے ہمیں گیس کی رائلٹی ملتی تو آج ہم فنڈز مانگنے کی بجائے دوسروں کی مدد کررہے ہوتے انہوں نے زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تحت ملنے والی امداد سے بلوچستان کو زیادہ حصہ ملنا چاہئے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ رواں مالی سال کا بجٹ 352ارب روپے کا ہے جس میں75ارب روپے کا خسارہ ہے پی ایس ڈی پی کے لئے 88ارب روپے رکھے گئے جس میں سے 13ارب روپے پہلے ہی خرچ ہوچکے ہیں ا ور اب پی ایس ڈی پی میں صرف88کروڑ روپے ہیں جن میں کچلاک بائی پاس بھی تعمیر نہیں کرسکتے ایسے میں آئندہ این ایف سی کے لئے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ماضی میں این ایف سی میں بلوچستان کا حصہ بڑھنے کی بجائے کم ہوتا رہا ہے بلوچستان وسائل سے مالا مال ہے 770کلو میٹر ساحل ہے مگر بد قسمتی سے 84فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ہم نے بلوچستان کے حقوق کے لئے طویل جنگ لڑی ہے مگر بدقسمتی سے ماضی میں سیندک اور ریکوڈک پر جس انداز میں معاہدے کئے گئے ان سے بلوچستان کے عوام کو فائدے کی بجائے صوبے کو نقصان ہوا اب بھی صوبائی حکومت بلوچستان کے حقوق کے لئے ایک قدم بڑھائے ہم اپوزیشن میں دو قدم آگے ہوں گے ہم نے صوبے کے لئے بھرپور جدوجہد کرنی ہوگی ورنہ آئندہ بجٹ بھیانک ہوگا ہوسکتا ہے کہ ہم بجٹ ہی نہ بناسکیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ نے کہا صوبے کو رقبے کی بنیاد پر 20فیصد وسائل پر 20فیصد اور آبادی پر 20فیصد کے تحت این ایف سی ایوارڈ میں رقم ملنی چاہئے ہمارے آباؤ اجداد نے ون یونٹ کے خاتمے اور صوبے کو شناخت دینے کے لئے لازوال قربانیاں دی ہیں جسے رائیگاں نہیں جانے دیں گے ان پانچ سالوں میں اگر ہم این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے حصے میں اضافہ کرپائے تو یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہوگی اگر اس اہم نوعیت کے مسئلے کو نظر انداز کیا گیا تو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی خاتون رکن شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ گزشتہ 75سالوں کی ناانصافیوں کا ازالہ پانچ سالوں میں ممکن نہیں ہے این ایف سی ایوارڈ میں جتنے شیئر ز ملنے چاہئے تھے وہ ہمیں نہیں ملے اس پر اگر ہم ماضی کی حکومتوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائیں تو بات وہی ہوگی کہ پھر ہم اپنا لہو کے کس کے ہاتھوں پر تلاش کریں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو تحفظات ہیں مگر اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی میں پیش کیاگیا ڈیٹا حکومت کو این ایف سی ایوارڈ سے متعلق اپنا کیس مرکز میں لڑنے میں آسانی فراہم کرے گا انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ سے متعلق اپوزیشن اراکین نے جو تجاویز دی ہیں صوبائی حکومت ان پر عمل کرتے ہوئے وفاق میں بلوچستان کا کیس لڑیں ۔ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ حقوق کے حوالے سے ہماری ایک طویل سیاسی جدوجہد رہی ہے مرکز میں جانے والی ہرحکومت نے بلوچستان سے ہونے والی ناانصافیوں پر معافی مانگتی ہے معافیوں سے اگر پیٹ بھرتا ترقی ہوتی تو آج پھر رونا کس بات کا ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم روایات کے پاسدار ہیں اور اسی کا سہارا لے کر مرکز میں ہر معاملے پر ہم سے ہاتھ ہوجاتا ہے انہوں نے کہا کہ آٹھویں این ایف سی ایوارڈمیں توسیع کرکے2016ء میں 14بلین کا اضافہ جبکہ 2017ء میں 27بلین کا اضافہ کیا گیا جن کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی بجائے اس وقت کی حکومت نے ڈیڑھ ارب روپے کا ہیلی کاپٹر اورٹوڈی گاڑیاں خریدیں ۔جس سے نوبت آج یہاں پہنچی ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس ملازمین کے تنخواہیں ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں ۔ انہوں نے ایوان میں تجویز دی کہ این ایف سی ایواڑ کی تیاری میں رقبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کوسٹل ائیریا اور صوبے میں گلہ بانی کے فروغ کیلئے پیکج شامل کئے جائیں ۔اجلاس میں نماز کے وقفے کے بعد پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے صوبائی وزیر داخلہ کی توجہ مبذول کراتے کہا کہ محکمہ پولیس میں کوئٹہ میں950پولیس اہلکار تعینات ہوئے ہیں جن میں500اہلکاروں کو جعلی ڈومیسائل پر بھرتی کیاگیا اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں کہ ان لوگوں نے یہ ڈومیسائل کیسے حاصل کئے ۔جس پر وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ معاملے کو دیکھ کر معزز رکن کو تفصیلات سے آگاہ کردیا جائے گا ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر بلوچستان سے متعلق وفاق سے رابطہ کریں گے بلوچستان کے عوام نے ہمیں ووٹ دے کر یہاں بھیجا ہے اور ہم صوبے کے وسائل اور حقوق کے دفاع کے امین ہیں وفاقی این ایف سی ایوارڈ میں رقبے ، غربت ، منتشر آبادی ، سی پیک سے متعلق رقم مختص کرے تاکہ صوبے سے پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہو ۔ قائد ایوان میر جام کمال نے کہا کہ ماضی میں جب بھی صوبوں کو معاشی حقوق نہیں دیئے جاتے این ایف سی کو ہر سال باقاعدہ طو رپر صوبائی اور وفاق میں اپنی رپورٹ پیش کرنی ہوتی ہے جس میں گزشتہ کئی سالوں سے کوتاہیاں برتی جارہی تھیں نیشنل فنانس کمیشن کی رپورٹ نئی حکومت میں آجانی چاہئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل حکومت اور اپوزیشن کے مشترکہ مسائل ہیں اور اس کے اثرات ہمارے مستقبل پر مرتب ہوں گے کوشش یہی ہے کہ بلوچستان کے معاملات پر اپوزیشن و حکومت میں اتفاق پیدا ہو ہم بلوچستان سے متعلق اپوزیشن کی مثبت تجاویز کو خوش آمدید کہیں گے او ران پر کام کریں گے تا کہ اس طرح کا کوئی تاثر نہ جائے کہ اسمبلی میں صوبے کے مسائل پر حکومت او راپوزیشن میں کوئی اختلاف ہے انہوں نے کہا کہ این ایف سی سے متعلق اپوزیشن کی سامنے آنے والی تجاویز کو وزیرخزانہ این ایف سی سے متعلق اجلاس میں اٹھائیں گے تاکہ این ایف سی کے اجراء کے طریق کار میں بلوچستان کی ضروریات کے مطابق تبدیلی لائی جاسکے ۔بلوچستان کا ایک ضلع پنجاب کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں رقبے کے لحاظ سے پانچ گنا بڑا ہے جہاں بنیادی سہولیات ناپید ہیں انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے رقبے کے لحاظ سے بڑی اور پھیلی ہوئی آبادیوں تک سہولیات کی فراہمی میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے اور وسائل بھی زیادہ درکار ہوتے ہیں یہ تمام مسائل صوبائی حکومت کو دیکھنے ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے نے بہت مشکل حالات کا سامنا کیا ہے یہاں کے زمیندار زمیندار ی نہیں کرسکے یہ بہت بڑا نقصان ہے یہاں کے کاروباری کاروبار نہیں کرسکے یہ بہت بڑا نقصان ہے اس وقت ہمیں شدید مالی مسائل کا سامنا ہے اگر سابقہ حکومتیں اس حوالے سے کام کرتیں تو آج بلوچستان کا حصہ 9فیصد تک محدود نہ ہوتا بلکہ آج بلوچستان کا حصہ بہت بڑھ چکا ہوتا۔انہوں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں وفاق نے پانچ ہزار ارب روپے صوبوں کو جاری کئے مگر ہمارے حصے میں صرف چار سو ارب روپے آئے اور وہ بھی جاری منصوبوں کے لئے بنے جن میں سے صرف دو سو ارب روپے استعمال کئے جاسکے بلوچستان میں کچی کینال جیسے منصوبے کو مکمل نہیں کیاگیا اگر یہ منصوبہ مکمل ہوتا تو ساڑھے آٹھ لاکھ ایکڑ اراضی آباد ہوجاتی یہ نہ ہونے سے صوبہ بہت بڑی آمدنی سے محروم ہے ہم اس بار وفاق سے پروفیشنل انداز میں دلائل کے ساتھ بات کریں گے کہ بلوچستان کے لئے این ایف سی کا طریق کار تبدیل کیا جائے ہمارے ذرائع آمدن زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ہیں مگر یہاں خشک سالی اور پانی کی قلت ہے ہمارے پاس صنعتیں نہیں ہیں ساٹھ فیصد علاقے ٹرانسمیشن لائن سے محروم ہیں ایسے میں ہم اپنے ذرائع سے وسائل کیسے پیدا کرسکتے ہیں وفاق سے بلوچستان کے حقوق کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑیں گے صوبے کے عوام کی ہم سے بڑی توقعات وابستہ ہیں اور ہم ان کی توقعات پر اس وقت پورا اتریں گے جب ہمارے پاس وسائل ہوں گے اور اگر وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ہم ڈیلیور نہ کرسکے تو صوبے کے عوام کا احساس محرومی بڑھ جائے گا آج وزیراعظم آرہے ہیں ان پر واضح کریں گے کہ بلوچستان کو سمجھنے کے لئے اس کے مسائل کو سمجھنا ضروری ہے اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان کو نہیں سمجھا جاسکتا ہماری کوشش ہوگی کہ ہم این ایف سی میں بھی بلوچستان کا موقف بہتر اندا زمیں پیش کرسکیں ۔ بعدازاں ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے بحث میں بھرپور حصہ لیا گیااورا راکین نے تجاویز دیں انہوں بحث نمٹانے کی رولنگ دیتے ہوئے اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردیا ۔