وسائل پر اختیار کے حصول کیلئے اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلیں گے ،جام کمال

  • September 13, 2018, 11:01 pm
  • National News
  • 112 Views

کوئٹہ(خ ن) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ تمام اہم صوبائی امور پراپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا اور ان کی رائے اور مشوروں کو اہمیت دی جائے گی، اگر حکومت صحیح معنوں میں کام کرنا چاہے تو اس میں اپوزیشن کا بھی اہم کردار ہے، ہم ایک اچھی طرز حکمرانی قائم کرکے سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے اپوزیشن جماعتیں نہ صرف حکومت کی رہنمائی کریں بلکہ ان کے حل کے لئے اپنا مؤثر کردار بھی ادا کریں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے متحدہ اپوزیشن کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا جس نے جمعرات کے روز ان سے ملاقات کی وفد میں ثناء4 بلوچ، ملک سکندر ایڈووکیٹ، نصراللہ زیرے اور اپوزیشن کی جماعتوں کے تمام اراکین اسمبلی شامل تھے۔ صوبائی وزراء4 سردار محمد صالح بھوتانی، سردار عبدالرحمن کھیتران، میر ظہور بلیدی اور اراکین اسمبلی اصغر اچکزئی اور دنیش کمار بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ملاقات میں اہم صوبائی امور اور مسائل پر تفصیلی گفتگو کی گئی، متحدہ اپوزیشن کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ اپوزیشن اچھے کاموں میں حکومت کا ساتھ دے گی اور دیرینہ مسائل کے حل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے سیندک اور پی پی ایل کے ساتھ گذشتہ دور حکومت میں کئے گئے معاہدوں اور رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان معاہدوں اور پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا۔ ملاقات میں اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ تاخیر کے شکار آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کے اجراء4 کے ساتھ ساتھ وفاق سے متعلق دیگر تصفیہ طلب امور پر متفقہ لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔ ملاقات میں سی پیک منصوبے کو بلوچستان کی ترقی کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گذشتہ دور حکومت میں سی پیک منصوبے میں مغربی روٹ ، انڈسٹریل زونز کے قیام اور دیگر امور میں بلوچستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا گیا اور طے پایا کہ سی پیک پر نظر ثانی کے عمل میں بلوچستان کے موقف کو شامل کرنے کے لئے وفاقی حکومت سے بات کی جائے گی ملاقات میں کوئٹہ کے مسائل بھی زیر غور آئے اورلیویز کی تنظیم نو اور کوئٹہ میں کینسر ہسپتال کے قیام کے امور کا جائزہ بھی لیا گیا، ملاقات میں اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ اہم صوبائی امور پر حکومت اور اپوزیشن کے ایک صفحہ پر ہونے سے عوام کو ایک مثبت پیغام جائے گا اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا، اپوزیشن اراکین نے اس موقع پر اپنے اپنے اضلاع کو درپیش مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے حل کی درخواست کی وزیراعلیٰ نے اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے گئے مختلف نکات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہم سب کا صوبہ ہے اور اس کے مسائل کا حل ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ امر باعث حوصلہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی مسائل کے حل کے لئے اپنی ذمہ داری کا احساس ہے،اپوزیشن صوبے اور عوام کی بہتری کے لئے اچھی اور قابل عمل تجاویز سامنے لائے حکومت خیرمقدم کرے گی، انہوں نے کہا کہ عرصہ دراز سے نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو دورکرنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا ہم نے ایک بہتر ماحول میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، خاص طور پر اپنے وسائل پر اختیار کے حصول کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اپوزیشن کی تجویز کی روشنی میں جامع لینڈ پالیسی بنا کر مقامی قبائل، عام لوگوں اور سرکاری اراضی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا اور سی پیک میں بلوچستان کے حقوق ومفادات کا تحفظ کیا جائے گا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہماری حکومت کو قائم ہوئے بیس دن ہوئے ہیں لیکن اس دوران اندازہ ہوا ہے کہ اگر ماضی میں حکومتی امور کو صحیح ڈگر پر رکھا جاتا تو مسائل اتنے گھمبیر نہ ہوتے، ماضی کے ترقیاتی پروگراموں میں صرف چند حلقوں کو اہمیت حاصل رہی اگر ترقیاتی پروگرام متوازن ہوتے تو ہر ضلع کو یکساں ترقی ملتی اور ستر فیصد سے زائد مسائل حل ہوچکے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ جو اضلاع نظر انداز ہوئے ہیں انہیں اہمیت دے کر دیگر اضلاع کے برابر لایا جائے گا۔ آئندہ ایسی متوازن اور قابل عمل پی ایس ڈی پی بنائی جائے گی جس میں کوئی بھی علاقہ نظر انداز نہ ہو جس کے لئے ایک قابل عمل فارمولہ طے کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی کا ہائیکورٹ کے حکم کے تحت ازسرنوجائزہ لیا جارہا ہے، پی ایس ڈی پی کے امور پر اسمبلی میں بھی بات ہو سکتی ہے اور اس حوالے سے کمیٹی بھی قائم کی جاسکتی ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جاری ترقیاتی منصوبوں کی تصدیق کے لئے وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کو ذمہ داری دی جائے گی اور ایسے منصوبے جو پی ایس ڈی پی میں شامل ہیں لیکن زمین پر نہیں ہیں ان کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی ، وزیراعلیٰ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے منصوبوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمیں اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے بالخصوص زبوں حالی کے شکار صحت اور تعلیم کے شعبوں کی تعمیر نو کی جائے گی اور ترقی کے بنیادی ڈھانچے کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے بھرپور اقدامات کئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن کی تجویز کی روشنی میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لئے آبادی کے تناسب سے یونین کونسلوں کی ازسرنو حد بندی کی جائے گی تاکہ کسی حلقے کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ بلدیاتی نظام حکومت میں تبدیلی اور بہتری کے لئے صوبے کے مفادات کو ترجیح دی جائے گی اور اس حوالے سے اپوزیشن اور تمام اسٹیک ہولڈر ز کو اعتماد میں لیا جائے گا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے ایسے احکامات جاری نہیں ہوں گے جن سے کسی کے ساتھ ناانصافی یا کسی کی حق تلفی ہو، گڈ گورننس کے قیام کے لئے میرٹ پر تقرری وتبادلے ہوں گے جس کے لئے اپوزیشن بھی تعاون کرے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ معاملات کی بہتری کی ابھی بھی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے اورہمیں اس کا بھرپورفائدہ اٹھانا ہے۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر اب بھی کچھ نہ کرسکے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ مالی نظم وضبط قائم نہ کیا گیا توآئندہ دس برسوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔ اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے صورتحال کی بہتری کے لئے بھرپورتعاون کی یقین دہانی کرائی۔