صوبائی کابینہ نے تحصیل گوادر کو اے ایریا قراردینے کی منظوری دیدی

  • September 11, 2018, 11:06 pm
  • National News
  • 377 Views

کوئٹہ(خ ن)وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کی زیرصدارت منعقد ہونے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بلوچستان لیویز فورس کی تشکیل نو کے ذریعہ اسے ایک پیشہ ورانہ اور متحرک فورس میں ڈھالنے کے لئے چار سالہ منصوبے کی اصولی طور پر منظوری دے دی گئی ہے جس پر لاگت کاتخمینہ آٹھ ارب روپے ہے جسے چار مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔ کابینہ نے محکمہ داخلہ کو لیویز فور س کی جانب سے کابینہ کو فورس کی تشکیل نو کے لئے پیش کی گئی سفارشات کا جائزہ لے کر انہیں حتمی منظوری کے لئے کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے ہدایت کی ہے، ڈائریکٹر جنرل لیویز فورس نے لیویز فورس کی تشکیل نو اور اس کی استعداد کار میں اضافہ کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ فورس کو وسعت دیتے ہوئے اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے نئے آپریشنل ونگ، کوئک رسپانس فورس ونگ، جدید مواصلاتی ونگ، کانٹر ٹیریرسٹ ونگ، بم ڈسپوزل ونگ، سی پیک سیکیورٹی ونگ، سماجی ومعاشی ترقیاتی منصوبوں کے تحفظ کا سیکیورٹی ونگ، اینٹیلجیس ونگ اور انوسٹی گیشن ونگ کے قیام کی ضرورت ہے جبکہ لیویز اہلکاروں کی استعداد کار میں اضافے کے لئے تربیتی کورسزبھی ناگزیر ہیں، انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے 90فیصدعلاقے میں لیویز فورس تعینات ہے جس کی کل تعداد 23132 ہے جن میں سے 13227 اہلکار وں کو جدید خطوط پر تربیت فراہم کی گئی ہے، جبکہ فیڈرل لیویز کی تعداد 6560ہے ، لیویز فورس کی تشکیل نو سے اس کی افادیت میں اضافہ ہوگا اور امن وامان کے قیام میں مدد ملے گی، کابینہ نے لیویز فورس کی تشکیل نو اور اس کی وسعت کی مجوزہ سفارشات کی اصولی منظوری دیتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس عمل سے ایک جانب تو لیویز فورس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب روزگار کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ کابینہ کے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ بھی کیا گیا کی فیڈرل لیویز فورس کی تعداد میں کم از کم دو ہزار اہلکاروں کے اضافہ کے لئے وفاقی حکومت سے درخواست کی جائے گی اور وفاقی حکومت سے کہا جائے گا کہ بلوچستان میں سی پیک پر کام ہورہا ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اضافی بوجھ بڑھ رہا ہے لہذا وفاقی حکومت بھی فیڈرل لیویز کی تعداد میں اضافہ کرکے صوبے کی معاونت کرے اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت فیڈرل لیویز کی تنخواہوں کی مد میں واجبات کی ادائیگی کے لئے فنڈزبھی فراہم کرے۔ صوبائی کابینہ نے گوادر تحصیل کو مکمل طور پر اے ایریا قرار دینے کی منظوری بھی دی۔ صوبائی کابینہ نے پاک فوج کے اشتراک سے کوئٹہ میں بلوچستان انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی کے قیام کے منصوبے کی منظوری بھی دی جس کے لئے اراضی پاک فوج فراہم کرے گی جبکہ انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر بھی پاک فوج کرے گی جسے ڈیڑھ سال کی مدت میں مکمل کیا جائے گا۔ بی آئی سی کی تعمیر ایسے مقام پر کی جارہی ہے جہاں عام شہریوں کی رسائی ممکن ہوگی، اجلاس کو بتایا گیا کہ بی آئی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین وزیراعلی بلوچستان ہوں گے جبکہ صوبائی وزیر صحت، اعلی سول وعسکری حکام اور امراض قلب کے ماہرین بورڈ میں شامل ہوں گے، بی آئی سی کو چلانے کے اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔ صوبائی کابینہ نے بی آئی سی کے قیام کے منصوبے کو بلوچستان کے عوام کے لئے امراض قلب کے بہترین اور جدید علاج کی فراہمی کی جانب اہم پیشرفت قرار دیا۔ صوبائی کابینہ نے گوادر یونیورسٹی کے قیام کے ایکٹ کے ڈرافٹ بل کی منظوری بھی دی جسے صوبائی اسمبلی میں پیش کیاجائے گا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے منصوبے کے لئے پانچ سو ایکڑ اراضی فراہم کردی ہے جبکہ پانچ ارب روپے کی لاگت کے اس منصوبے کے فنڈز وفاقی حکومت فراہم کرے گی، کابینہ نے محکمہ تعلیم کالجز کو صوبے میں زیر تکمیل اور غیر فعال پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹس ، کیڈٹ کالجز اور بلوچستان ریذیڈینشل کالجزکے منصوبوں کی فوری تکمیل اور فعالی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ کابینہ نے اسپیشل اسسٹنٹ برائے وزیراعلی کے تعیناتی کے لئے بلوچستان رولز آف بزنس میں ترمیم کی منظوری بھی دی۔ صوبائی کابینہ نے مختلف محکموں میں خالی اسامیوں پر بھرتی کے عمل کا جائزہ بھی لیا سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی نے صوبائی کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت صوبے کے مختلف محکموں میں 24ہزار سے زائد اسامیاں خالی ہیں جن میں سے 2400سے زائد خالی اسامیوں پر بھرتی کا عمل حتمی مراحل میں ہے، کابینہ کے بعض اراکین کی جانب سے گذشتہ دور میں کی گئی بھرتیوں پر عوامی شکایات کے تناظر میں تحفظات کا اظہار کیا گیا، کابینہ نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا جو ان بھرتیوں میں ہونے والی مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ خالی اسامیوں پر بھرتی کے عمل کے دوبارہ آغاز کا فیصلہ بھی کرے گی اور ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرے گی، کمیٹی میں صوبائی وزرا عبدالرحمان کھیتران، انجینئر زمرک خان اچکزئی، میر ظہور بلیدی، عبدالخالق ہزارہ، نصیب اللہ مری، ایس اینڈ جی اے ڈی، خزانہ اور قانون کے محکموں کے سیکریٹری شامل ہوں گے۔ کابینہ نے کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں بھرتی کے عمل میں پائی گئی بے قاعدگی کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا فیصلہ بھی کیا، کابینہ کا کہناتھا کہ اس اقدام کا مقصد کسی کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں بلکہ حقداروں کے ساتھ ہونے والی حق تلفی کا ازالہ کرناہے، کابینہ نے پی ایس ڈی پیِ 2018-19 میں شامل نئے منصوبوں کے حوالے سے بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ بھی لیا ۔ ایڈووکیٹ جنر ل بلوچستان نے صوبائی کابینہ کو فیصلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا جبکہ قائم مقام ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی وترقیات نے کابینہ کو ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لائحہ عمل کے حوالے سے بتایا کہ اس ضمن میں محکمہ منصوبہ بندی وترقیات صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کرنے کے لئے سفارشات تیار کررہا ہے، کابینہ نے ہدایت کی کہ تمام متعلقہ محکمے ایسے تمام نئے ترقیاتی منصوبوں جو کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے اندر آتے ہیں کاازسرنو جائزہ لیتے ہوئے ان کے بارے میں اپنے اپنے محکمے کے وزیر کو بریفنگ دیں تاکہ ان منصوبوں کو بلوچستان ہائیکورٹ کی ہدایت کے تحت سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے اور پلاننگ کمیشن کی گائیڈ لائن کے مطابق بنایا جاسکے۔ وزیراعلی نے کہا کہ پی ایس ڈی پی ایک عوامی دستاویز ہے جو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے لہذا عوام الناس پی ایس ڈی پی میں شامل ترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت کا جائزہ لے کر اس حوالے سے حکومت کو اپنی رائے سے آگاہ کریں تاکہ ان میں بہتری لائی جاسکے، وزیراعلی نے اس ضمن میں عوام کی آگاہی کے لئے اخبارات میں اشتہار دینے کی ہدایت بھی کی۔ اجلاس کو عالمی بنک کی جانب سے مختلف سماجی شعبوں کی ترقی کے لئے آئی ڈی اے کے تحت آسان شرائط پر قرضہ اور گرانٹ کی فراہمی کی پیشکش سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی، کابینہ نے عالمی بنک کی پیشکش کاتفصیلی جائزہ لینے کے لئے محکمہ منصوبہ بندی وترقیات کو متعلقہ محکموں کی مشاورت سے سفارشات تیار کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی نے کہا کہ حکومت کا مطلب صوبائی کابینہ ہے اور اس اعلی ترین فورم پر صوبے اور عوام کے مفاد ، ان کی سہولت اور تحفظ کے لئے اقدامات کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے، انہوں نے کہا تمام محکمے اور ادارے کابینہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے پابند ہیں، اس ضمن میں کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔