صوبائی کا بینہ میں پشتونوں کو صحیح نمائندگی نہ دینا بدنیتی کی انتہا ہے ، رحیم زیارتوال

  • September 2, 2018, 11:08 pm
  • National News
  • 398 Views

کوئٹہ(آن لائن)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی رہنماء اور سابق صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ صوبائی کا بینہ میں پشتونوں کو صحیح نمائندگی نہ دینا بدنیتی کی انتہا ہے صوبے میں سب سے بڑا مسئلہ برابری کا ہے باپ، تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام کے منتخب ہونیوالے نمائندے برابری کی بات نہیں کر سکتے اسی لئے پشتونخواملی عوامی پارٹی کو راستے سے ہٹایا گیا تا کہ وہ یہاں پشتون ، بلوچ کی برابری کی بات نہ کریں پشتونخواملی عوامی پارٹی پارلیمنٹ کے باہر اور اندر اس مسئلے پر ضرور بات کرینگے انہوں نے کہا ہے کہ جب پشتونخواملی عوامی پارٹی اقتدار میں آئی تو 8 سے10 وزراء ہمارے تھے اور اسی طرح دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی بھی وزیر بننے مگر موجودہ صوبائی کا بینہ میں بنیادی طور پر پشتونوں کو مکمل نظرانداز کیا گیا اور نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے برابری کو تسلیم نہیں کیا جا تا ان پارٹیوں سے منتخب آنیوالے نمائندے برابری کی بات نہیں کر سکتے جبکہ بلوچ علاقوں سے آئے ہوئے اراکین اسمبلی ہر پارٹی میں اپنی برابری کی بات کر تا ہے جبکہ ہمارے ہاں نمائندے خوف کی وجہ سے یہ بات نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے آج صوبائی کا بینہ میں پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے انہوں نے کہا ہے کہ یہی معاہدہ ہوا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ بلوچ ہو گا تو گورنر پشتون ہوگا اور اسی طرح کا بینہ میں بھی برابری ہو گی مگر بد قسمتی سے یہاں ایک غلط روایات چل پڑی ہے کہ وسائل بھی بلوچستان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور ہمارے علاقے آج بھی کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگی ہم ان حالات میں خاموش نہیں رہ سکتے اور ہر میدان میں ان کا مقابلہ کیا جائیگا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو چا ہئے کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اپنا کردا رادا کریں جس دن انتخابات ہوئے تھے تمام سیاسی وجمہوری قو توں نے ان انتخابات کو مسترد کیا اور یہ الیکشن کے نام پر سلیکشن تھا جس کے بعد متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہوا اور کہا گیا کہ وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر پر تمام جماعتیں متفقہ لائحہ عمل طے کرے گی مگر بعد میں پیپلز پارٹی نے علیحدگی اختیار کی جس کی وجہ سے آج ہم کامیابی حاصل نہ کر سکے اور 4 ستمبر کو ہونیوالے صدارتی انتخابات میں متحدہ اپوزیشن پر امید ہے کہ پیپلز پارٹی کوئی لائحہ عمل طے کرے گی اور مثبت کردا رادا کرینگے۔