سینٹر عثمان کاکڑ کی زیر صدارت سینٹ فنگشنل کمیٹی کا اجلاس

  • August 7, 2018, 10:42 pm
  • National News
  • 131 Views

کوئٹہ (آن لائن)سینٹ فنگشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹرمحمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہو ا۔ فنگشنل کمیٹی کے اجلاس میں ملک کے پسماندہ علاقوں اور فاٹا سمیت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کارکردگی ، مختص اور استعمال شدہ بجٹ اور وہ منصوبہ جات جن کے فنڈز واپس کر دیئے گئے کے معاملات کے علاوہ بی آئی ایس پی کی طرف سے غربت کے حوالے سے کرائے گئے سروے اور بی آئی ایس پی ملازمین کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔سیکرٹری بی آئی ایس پی نے اراکین کمیٹی کی طرف سے گزشتہ اجلاس میں اٹھائے گئے سوالات بارے کمیٹی کو تفصیلی آگاہ کیا ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اب تک 5.7 ملین خاندان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں اور یہ پروگرام خاص طور پر خواتین کی بہتری ، فلاح و بہبود کیلئے ترتیب دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ یہ پروگرام2008 میں شروع کیا گیا تھا جس پر اب تک 589.8 ارب روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ لوگ کے حالات زندگی کو بہتر کرنے اور غربت کے خاتمے کے حوالے سے 15 مختلف کمپنیوں سے معاہدات بھی کیے گئے ہیں۔ وسیلہ تعلیم پروگرام 4 سے12 کے بچوں کیلئے ہے اس پروگرام کے تحت2020 تک 2.5 ملین بچے پرائمری سکول میں تعلیم حاصل کر سکیں گے ۔یہ پروگرام اکتوبر2012 میں شروع کیا گیا تھا جس میں اب تک 2.3 ملین بچے داخل کیے گئے جن پر اب تک 8 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔ خواتین کوبا اختیار اور خواندہ بنانے کے حوالے سے ایک پروگرام کے تحت خواتین کو گریجویشن تک تعلیم دی جارہی ہے اس پروگرام کو بین الاقوامی تعلیمی اداروں نے سپورٹ کیا ہے ۔ یہ پروگرام اپنے پہلے فیز پر کام کر رہا ہے ۔ کمیٹی کو بی آئی ایس پی کے گزشتہ تین سالہ بجٹ کے حوالے تفصیلات سے آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ مالی سال 2017-18 میں121 ارب روپے فراہم کیے گئے جن میں 112.70 ارب روپے استعمال کیے گئے جبکہ 12.30 ارب روپے واپس کر دیئے گئے ۔ مالی سال 2015-16 میں102 ارب روپے مختص کیے گئے جن میں سے 101.99 استعمال ہوئے ۔ مالی سال 2016-17 میں115 ارب روپے مختص کیے گئے جن میں سے 110.88 ارب استعمال ہوئے جبکہ 4.12 واپس ہوئے ۔ کمیٹی کو خاص طور پر آگاہ کیا گیا کہ یہ بجٹ صوبوں کے حساب سے مختص نہیں کیا جاتا ادارہ اپنے پروگرام کے تحت پورے ملک میں استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ اراکین کمیٹی نے اس بات کانوٹس بھی لیا کہ بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے خاندانوں کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان پوسٹ سے سسٹم بائیو میٹرک پر منتقل ہونے کی وجہ سے تمام صارفین شامل ہونے پر تعداد پوری ہو جائے گی ۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ادارے کو 90 فیصد فنڈ حکومت فراہم کرتی ہے جبکہ 10 فیصد ڈونر سے اکھٹے ہوتے ہیں جن میں آئی ایم ایف ، ایشین ڈویلپمنٹ بنک وغیر ہ شامل ہیں ۔ ڈونز کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے فراہم کردہ فنڈز سسٹم کی بہتری پر خرچ کیے جائیں ۔ چیئرمین کمیٹی نے تجویز دی کہ صوبوں کو تحقیق کے حوالے سے شامل کیا جائے وہ اپنے علاقوں کے مسائل و جغرافیائی حالات سے بہتر واقف ہیں ۔کمیٹی نے یہ تجویز بھی دی کہ بی آئی ایس پی کے بورڈ میں تمام صوبوں بشمول فاٹا کے ممبران کی نمائندگی کو لازم بنائیں اور کوشش کریں کہ ان میں ٹیکنکل لوگ شامل ہوں ۔ غربت کے حوالے سے بی آئی ایس پی کے اب تک کے کیے جانے والے سروے کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2008 میں سروے کا کام شروع کیا گیا جس میں پسماندہ علاقوں میں ابتدائی طور پر ہر ایم این اے کو8 ہزار اور سینیٹرز کو ایک ہزار فام دیئے گئے ۔2010 سے ڈور ٹو ڈور لوگوں سے جاکر فام پر کرائے گئے یہ سروے نادرا سے کرایا گیا تھا ۔جس پر کمیٹی ممبران نے کہا کہ اس سروے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس سروے کے اعداد وشمار کو غلط قرار دیا اور کہا کہ زیادہ تر غریب اور اصل حقدار لوگ آج بھی اپنے حق سے محروم ہیں جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ پہلا سروے تھا اور لوگوں میں شعور کی کمی تھی جس کی وجہ سے بہت سے غلطیاں ہوئیں لیکن اب جون2017 سے تمام نظام کار بائیو میٹرک ہوگیا ہے اور کسی بھی قسم کی بے ضابطگی کی گنجائش نہیں رہے گی ۔ چیئرمین کمیٹی نے خاص طور پر ہدایات دیں کہ آئندہ ہونے والے سروے میں لوکل پارٹیز کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹرین اور خاص طور پر زکوۃٰ ممبران کو اس میں شامل کیا جائے ۔ فنگشنل کمیٹی نے بی آئی ایس پی کی طرف سے پسماندہ علاقوں کا سروے مکمل نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہا ر کرتے ہوئے جلد از جلد سروے مکمل کرنے کی ہدایت کر دی جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت خزانہ کی طرف سے فنڈز کے ایشوز ہیں جس کی وجہ سے سروے مکمل نہیں ہو سکا۔ کمیٹی نے سروے فام کی کاپی بھی طلب کر لی ۔ کمیٹی کو بی آئی ایس پی کے ملازمین کی تقرری ، ڈیپوٹیشن کے معاملات کے حوالے سے بتایا گیا کہ گریڈ 1 سے 21 تک منظور شدہ پوسٹیں 4133 ہیں جن میں سے 2086 خالی ہیں ۔ کنڑیکٹ ملازمین کی تعداد 11ہے اور ڈیپوٹیشن پر آئے ملازمین کی 347 ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2013 میں تقرریوں پر پابندی اور سروس رول نہ ہونے کی وجہ سے بھرتیوں کے معاملات التواء کا شکار ہوئے۔ جس پر فنگشنل کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام تقرریاں جلد سے جلد مکمل کر کے کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے ۔ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل ، مولوی فیض محمد ، گیان چند ، قرۃ العین مری ، فدا محمد ، حاجی مومن خان آفریدی ، کلثوم پروین کے علاوہ سیکرٹری بی آئی ایس پی ،ایڈیشل سیکرٹری فنانس و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔